صبر کی اہمیت
قرآن و حدیث میں صبر کی بہت زیادہ اہمیت بتائی گئی ہے۔ یہاں تک کہ قرآن کی ایک آیت میں بتایا گیا ہے کہ صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر دیا جائے گا:إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ (39:10)۔صبر کی یہ اہمیت کیوں ہے۔ صبر کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ صبر آدمی کو حقیقت پسند بنانے والاہے۔ صبر آدمی کو منفی سوچ سے بچاتی ہے، اور مثبت سوچ والا انسان بناتی ہے۔ مثبت سوچ والا آدمی ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے، اور منفی سوچ والا آدمی ہمیشہ ناکامیاب۔ کیوں کہ منفی سوچ والا آدمی قدر ت کے قانون کی پیروی نہیں کرتا۔ اس کے برعکس، مثبت سوچ والا انسان ہمیشہ فطرت کے قانون کی پیروی کرکے ہمیشہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
جس آدمی کے اندر بے صبری کا مادہ ہے، وہ اپنے جذبات پر کنٹرول نہیں کرے گا۔ اس کا مزاج یہ ہوگا کہ جب وہ چاہے، اسی وقت اس کی مطلوب چیز مل جائے۔ اس کے برعکس، صبر والا آدمی اپنے کو دوسرے تقاضوں کے مطابق بنانے کی کوشش کرے گا۔ وہ چاہے گا کہ اس وقت تک انتظار کرے جب کہ اصول کے مطابق، اس کا مقرر وقت آجائے۔ وہ جانے گا کہ وہ اپنی بنائی ہوئی دنیا میں نہیں ہے۔اس کا بنانے والا اللہ رب العالمین ہے۔ اس طرح وہ اپنی خواہش کو کنٹرول کرے گا، اور وہ اللہ کے مقرر قانون کی پیروی کرے گا۔ کیوں کہ وہ جانے گا کہ اللہ کے مقرر قانون کی تعمیل کیے بغیر پورا کام بننے والا نہیں۔
صبر کا اصول فریقِ اوّل کو اِس سے بچاتا ہے کہ اس کا ذہن فریقِ ثانی کے بارے میں غیر معتدل ہو جائے۔ پُرامن طریقِ کار(peaceful activism) معتدل ذہن کا اظہار ہے۔ غیر معتدل یا منفی ذہن کبھی پُر امن طریقِ کار کو کامیابی کے ساتھ جاری نہیں رکھ سکتا۔ صبر کا اصول در اصل اِسی اعتدال یا مثبت مزاج کی برقراری کی ایک یقینی گارنٹی ہے۔ جو لوگ ناموافق حالات سامنے آنے کے باوجود نہ بدکیں ،اور قانون فطرت کے ساتھ اپنے کو باندھے رہیں، وہی وہ لوگ ہیں جو سنت الٰہی کے مطابق کامیابی کی منزل تک پہنچیں گے۔