صبر— سپیریر سولیوشن
قرآن کی تقریباً 103 آیتیں براہِ راست طور پر صبر سے متعلق ہیں۔ اور بقیہ آیتیں بالواسطہ طور پر صبر سے متعلق ۔ گویا قرآن کی تمام تعلیمات صبر پر مبنی ہیں۔ یہ کہنا بالکل صحیح ہوگا کہ قرآن صبر کی کتاب ہے۔
صبر کی براہِ راست آیتوں کا معاملہ واضح ہے۔مثلاً—
وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاة ِ(2:45)۔یعنی، اے ایمان والو، صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو۔
وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ(3:186)۔ یعنی، اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو یہ بڑے حوصلہ کا کام ہے۔
وَاصْبِرْ عَلَى مَا أَصَابَكَ(31:17)۔یعنی، جو مصیبت تم کو پہنچے اس پر صبر کرو۔
وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ(90:17)۔یعنی،اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی۔ وغیرہ
یہ آیتیں وہ ہیں جن میں براہِ راست الفاظ میں صبر کا حکم دیا گیا ہے۔مگر دوسری بیشتر آیتوں کا بھی صبر سے نہایت گہرا تعلق ہے۔ مثلاً قرآن کی پہلی آیت ہے:الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ(2:2)۔اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ مطلوب ہے کہ اس کے بندے اس کا شکر اور تعریف کریں۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ موجودہ دنیامیں کوئی بھی آدمی ناخوش گوار تجربات سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ قرآن کے مطابق انسان کو کبد (مشقت) میں پیدا کیا گیا ہے(90:4)۔ ایسی حالت میں کسی کے لیے بھی یہ ممکن نہیں کہ وہ یہاں خوشیوں اور مسرتوں کی زندگی بنا سکے۔
پھر حقیقی معنوں میں کوئی آدمی شکر کرنے والا کیسے بن سکتا ہے۔ اس کا واحد ر از صبر ہے۔ یعنی آدمی جب دنیا میں پیش آنے والی مصیبتوں پر صبر کرے گا، اس وقت اس کے لیے ممکن ہوگا کہ سچا کلمۂ شکر اس کی زبان پر جاری ہو سکے۔ اسی لیے قرآن میں شکر کے ساتھ صبر کو وابستہ کیا گیا ہے (31:31)۔
صبر آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ مسائل کے مقابلہ میں تسخیری انداز کا بر ترحل دریافت کر سکے۔ آدمی جب فریق ثانی کے مقابلہ میں بھڑک جائے تو وہ اس پوزیشن میں نہیں ہوتا کہ وہ سوچ کر کوئی گہرا جواب دے یا کوئی دوررس منصوبہ بنا سکے۔ مگر جب وہ صبر و تحمل سے کام لیتا ہے تو وہ اس قابل ہو جاتا ہے که فوری اقدام کے بجائے سوچا سمجھا ہوا اقدام کرے ۔ اور یہ تاریخ کا تجربہ ہے کہ فوری اقدام کرنے والا ہمیشہ ناکام ہوتا ہے اور سوچ سمجھ کر اقدام کرنے والا ہمیشہ کامیاب— صبر ہر قسم کے مسائل کا برترحل (سپیر یرسو لیوشن) ہے۔