رد عمل نہیں
صبر ابتدائی طور پر اس بات کا نام ہے کہ کوئی ناخوشگوار صورت حال پیش آئے تو آدمی برداشت کرلے۔ آہ واویلا کرنے کے بجائے وہ تحمل کا طریقہ اختیار کرے۔ صبر یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو ری ایکشن (reaction) سے بچائے۔ اور ناخوشگوار صورتِ حال کو اندر ہی اندر سہہ لے۔ صبر اپنے وسیع تر مفہوم کے اعتبار سے پیس فل پلاننگ کا نام ہے۔ بے صبری یہ ہے کہ آدمی ری ایکشن کا طریقہ اختیار کرے، اور صبر یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو آخری حد تک ری ایکشن سے بچائے۔ بلکہ خاموش انداز سے پرامن تدبیر کے ذریعے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرے۔
صبر کا معاملہ اجتماعی زندگی میں جب بھی پیش آئے، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ٹکراؤ کو اوائڈ کیا جائے، اور وقتی طور پرکوئی تکلیف پیش آئے توبرداشت کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے آدمی اس معاملے پر غور و فکر کرے۔پھر غیر جذباتی انداز میں خاموش پلاننگ کے ذریعے معاملے کو حل کرنے کی کوشش کی جائے۔
پیغمبر اسلام کی پوری زندگی اس طریقِ کار کی عملی مثال ہے۔ آپ کا زمانہ قبائلی دور (tribal age) تھا۔ اس زمانے میں لوگوں کو مسائل کا ایک ہی حل معلوم تھا۔ وہ تھا ٹکراؤ اور جنگ و جدال کے ذریعے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرنا۔ پیغمبر اسلام نے ہمیشہ اختلافی معاملات میں تحمل کا طریقہ اختیار کیا، اور پیس فل پلاننگ (خاموش منصوبہ بندی) کے ذریعے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی۔ آپ کی پوری زندگی، خواہ مکی دورہو یا مدنی دور،اسی دانش مندانہ طریقِ کار کی کامیاب مثال ہے۔
مثلاً صلح حدیبیہ کے موقع پر اہل مکہ نے آپ کو پروووک (provoke)کرنے کا ہر ممکن طریقہ اختیار کیا تھا۔مگر رسول اللہ نے ہمیشہ اعراض کا طریقہ اختیار کیا ۔ اس کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے:
إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَى وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا (48:26)۔یعنی،جب انکار کرنے والوں نے اپنے دلوں میں حمیت پیدا کی، جاہلیت کی حمیت، پھر اللہ نے اپنی طرف سے سکینت نازل فرمائی اپنے رسول پر اور ایمان والوں پر، اور اللہ نے ان کو تقویٰ کی بات پر جمائے رکھا اور وہ اس کے زیادہ حق دار اور اس کے اہل تھے۔
حدیبیہ کے موقع پر آپ نے مکمل طور پر یک طرفہ صبر کا طریقہ اختیار کیا۔ چنانچہ اس کا نتیجہ فتح مبین کی شکل میں آیا(الفتح، 48:1)۔