رُجز کو چھوڑو
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 عیسوی میں مکہ میں اپنا مشن شروع کیا۔اس وقت آپ کو ایک بنیادی ہدایت یہ دی گئی کہ وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ (74:5)۔ یعنی، رجز کو چھوڑ دے۔ رجز کا مطلب گندگی ہے۔
وہ رجز کیا تھا جس کو آپ نے چھوڑ کر اپنا مشن چلایا۔اس کی تفصیل آپ کی سیرت کے مطالعے سے معلوم ہوتی ہے۔اس کا تعلق آپ کے مشن کے طریقہ کار (method) سے تھا۔ اگر رسول اللہ کی عملی روش کو لے کر اس کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ نزاعی طریقہ کار (confrontational method) کو چھوڑو، اور غیر نزاعی طریقہ کار (non-confrontational method) کو اختیار کرو۔
رسول اللہ کی سیرت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنا مشن پوری طرح غیر نزاعی اصول پر چلایا۔کعبہ میں اس وقت کے لوگوں نے 360 بت رکھ دیے تھے۔ مگر آپ نے اس سے ٹکراؤ نہیں کیا، بلکہ اس سے اعراض کا طریقہ اختیار کیا۔ مکہ میں دارالندوہ (tribal parliament) تھا۔ مگر آپ نے اس میں قبضہ کرنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ اس سے مکمل طور پر اعراض کرتے ہوئے اپنا مشن غیر سیاسی انداز میں چلایا۔ مکہ کے سرداروں نے کہا کہ آپ مکہ چھوڑ دیجیے، تو آپ نے ان کے اس فیصلہ پر کوئی ٹکراؤنہیں کیا، بلکہ خاموشی کے ساتھ مکہ چھوڑ کر مدینہ چلے گئے۔
اس واقعے کی روشنی میں رجز کو چھوڑنے کا مطلب یہ ہوگا کہ ہر قسم کے ٹکراؤ کو چھوڑتے ہوئے، اپنا مشن جاری رکھا جائے۔ یعنی مذہبی ٹکراؤ، سیاسی ٹکراؤ، قومی ٹکراؤ، حقوق کا ٹکراؤ، وغیرہ سے مکمل طور پر اجتناب کرتے ہوئے توحید کا مشن جاری رکھا جائے۔ یہی طریقہ ابدی طور پر اہل اسلام کا طریقہ ہے۔ وہ جس ملک یا جس زمانے میں ہوں، ہر جگہ اسی غیر نزاعی طریقہ کو اختیار کرنا ہے۔ یہی کامیابی کا واحد طریقہ ہے۔ قانون ِخداوندی کے مطابق کوئی اور طریقہ کامیابی کا طریقہ نہیں ہوسکتا۔