تعمیر شخصیت
قرآن کی سورہ نمبر83 میں اہل تکذیب کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: کَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِہِمْ مَا کَانُوا یَکْسِبُونَ(83:14)۔ یعنی، ان کے دلوں پر اُن کے اعمال کا زنگ چڑھ گیا ہے۔ اس آیت میں ایک نفسیاتی معاملہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو ان لوگوں کے ساتھ پیش آتا ہے جو ضد اور سرکشی کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ اس معاملہ کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَذْنَبَ كَانَتْ نُكْتَةٌ سَوْدَاءُ فِي قَلْبِهِ، فَإِنْ تَابَ وَنَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ، صُقِلَ قَلْبُهُ، وَإِنْ زَادَ زَادَتْ، حَتَّى يَعْلُوَ قَلْبَهُ (ابن ماجہ، حدیث نمبر4245 ؛ مسند احمد ، حدیث نمبر 4245)۔ یعنی مومن جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک کالا دھبہ پڑ جاتا ہے۔ اگر وہ توبہ کرے اور اُس سے باز آجائےاور استغفار کرے تو اس کا د ل دھبہ سے پاک ہوجاتا ہے۔ اور اگر گناہ میں مزید اضافہ ہو تودھبہ بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اس کے پورے دل پر چھا جاتا ہے۔
یہ تمثیل کی زبان میں ایک نفسیاتی معاملہ کو بتایا گیا ہے۔ جب کوئی انسان برائی کرے اور پھر وہ جلد ہی متنبہ ہوجائے۔ وہ برائی کرنے کی خواہش کو اپنے دل سے نکال دے تواس کا دل پاک و صاف ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر ایسا ہو کہ آدمی ایک کے بعد ایک برائی کرتا رہے۔ وہ اپنا محاسبہ کرکے اپنے دل سے اس کے اثرکو زائل نہ کرے تو دھیرے دھیرے اس کا پورا دل بے حسی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اب وہ برائیوں ہی میں جینے لگتا ہے اور سچائی کی بات اس کو متاثر نہیں کرتی۔
جدید نفسیاتی مطالعہ نے اس معاملہ کو مزید واضح کیا ہے۔ اب یہ بات ایک پر اسرار عقیدہ نہیں رہی، بلکہ وہ ایک معلوم حقیقت بن گئی ہے۔ اب وہ خالص علمی اعتبار سے انسان کے لیے قابل فہم ہے۔
جدید نفسیاتی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ انسان کے دماغ کے تین بڑے حصے ہیں۔ یہ تینوں حصے ہر عورت اور ہر مرد کے دماغ میں پائے جاتے ہیں۔ وہ پیدائشی طورپر ہر انسانی دماغ کا حصہ ہیں۔ وہ تین حصے یہ ہیں:
1۔ شعوری ذہن (conscious mind)
2۔ تحت شعور (sub-conscious mind)
3۔ لاشعور (unconscious mind)
تجربہ و تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کوئی بھی خیال جب وہ ایک بار دماغ میں آجائے تو وہ ہمیشہ کے لیے انسانی دماغ کا حصہ بن جاتا ہے، اور جیسا کہ معلوم ہے، انسانی دماغ ہی در اصل انسانی شخصیت کا دوسرا نام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی خیال انسان کے دماغ میں آجائے تو وہ ہمیشہ کے لیے انسان کی شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر وہ اس کو اپنی شخصیت سے الگ کرنا چاہے تو وہ اس کو الگ کرنے پر قادر نہیں ہوتا۔
جب کوئی بات انسان کے دماغ میں آتی ہے، خواہ وہ منفی ہو یا مثبت تو وہ سب سے پہلے دماغ کے شعوری حصہ میں آتی ہے۔اس کو زندہ حافظہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد آدمی جب رات کو سوتا ہے تو فطری عمل کے تحت اپنے آپ ایسا ہوتا ہے کہ وہ بات شعوری ذہن سے چل کر ذہن کے تحت الشعور حصہ میںپہنچ جاتی ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو اس کے خیال کے اوپر آدمی کا شعوری کنٹرول صرف پچاس فیصد رہ جاتا ہے۔ پچاس فیصد وہ اس کے شعوری کنٹرول سے باہر ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد جب وہ اگلی رات کو سوتا ہے تویہ خیال مزید سفر کرکے ذہن کے لاشعور حصہ میں پہنچ جاتا ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو اس کے بعد یہ خیال اس کے شعوری کنٹرول سے پوری طرح باہر ہو جاتا ہے۔
انسانی ذہن کے یہ تینوں حصے شعور کے اعتبار سے ذہن کی تین حالتوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مگر جہاں تک انسانی شخصیت کا تعلق ہے، وہ ہر حال میں یکساں طورپر اُس کا معمول بنی رہتی ہے۔ کوئی خیال جب تک زندہ حافظہ میں ہو تو وہ انسانی شخصیت کا معلوم حصہ ہوتا ہے۔ مگر جب وہ تحت شعور میں پہنچ جائے تو اگر چہ اب بھی وہ مکمل طورپر انسانی شخصیت کا حصہ ہوتا ہے مگر عام حالات میں وہ انسان کے علم میں تازہ نہیں ہوتا۔
یہی روز مرہ کے افکار جو انسان کے ذہن میں آتے ہیں وہی اس کی شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں۔ جیسے افکار ویسی شخصیت۔ مثبت افکار سے مثبت شخصیت بنے گی۔ لیکن اگر یہ افکار منفی افکار ہوں تو انسان کی شخصیت بھی منفی بنتی چلی جائے گی۔
آج کل یہ حال ہے کہ آپ جس عورت یا مرد سے ملیے ہر ایک کو آپ منفی سوچ میں مبتلا پائیں گے۔ اگر کوئی شخص بظاہر مثبت باتیں کرتا ہوا نظر آئے تب بھی اس کی یہ بات صرف اوپری طور پر ہوگی۔ اگر آپ مزید گفتگو کرکے اس کی اندرونی شخصیت کو جاننے کی کوشش کریں تو آپ پائیں گے کہ اس کی اندرونی شخصیت بھی اُتنی ہی منفی تھی جتنی کہ دوسروں کی شخصیت۔ اس طرح موجودہ زمانہ کا ہر آدمی اپنے آپ کو منفی قبرستان میں دفن کیے ہوئے ہے، اگر چہ اس کو خود بھی اس ہلاکت خیز واقعہ کی خبر نہیں۔ اس میں غالباً مذہبی انسان اور سیکولر انسان میں کوئی فرق نہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ سب سے بُری شخصیت منفی شخصیت ہے اور سب سے زیادہ اچھی شخصیت وہ ہے جو مثبت شخصیت ہو۔ ایسی حالت میں یہ سوال ہے کہ مثبت شخصیت کی تعمیر کس طرح کی جائے۔ مذکورہ اسلامی تعلیم اور مذکورہ نفسیاتی تحقیق دونوں کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو اس کی ایک واضح عملی صورت بنتی ہے۔ اس کو یہاں درج کیا جاتا ہے ۔
اس عمل کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ جب کوئی منفی خیال آدمی کے ذہن میں آجائے تو وہ اس کو پہلے ہی مرحلہ میں ختم کردے۔ خصوصی تدبیر کے ذریعہ اُس کے منفی پہلو کو مثبت پہلو میں تبدیل کرلے۔ مثلاً وہ غصہ کو فوراً معاف کردے تاکہ اس کا غصہ انتقام کی صورت اختیار نہ کرنے پائے۔ کسی کی ترقی اُس کو پسند نہ آئے تو اُسی وقت وہ اس کو نظر انداز کردے تاکہ وہ اس کی شخصیت میں حسد بن کر شامل نہ ہوسکے، وغیرہ۔
ہر بُرے خیال کے ساتھ فوراً ہی تبدیلی کا یہ عمل کرنا چاہیے۔ اگر اس میں دیر ہوئی تو جلد ہی ایسا ہوگا کہ وہ آدمی کے تحت شعور میں چلا جائے گا۔ اور پھر کچھ عرصہ بعد وہ اس کے لاشعور میں داخل ہوجائے گا۔ اور جب ایسا ہوگا تو وہ آدمی کی شخصیت کا اس طرح لازمی حصہ بن جائے گا کہ آدمی چاہے بھی تو وہ اس کو اپنے سے جُدا نہ کرسکے۔
لوگ عام طورپر ایسا نہیں کرتے اور اس کی یہ بھیانک قیمت ادا کر رہے ہیں کہ ہر ایک خوبصورت کپڑوں کے پیچھے ایک منفی شخصیت کی لاش لیے ہوتا ہے۔ منفی شخصیت دراصل جہنمی شخصیت ہے۔ جو عورت یا مرد اس ہلاکت خیز انجام سے بچنا چاہتے ہوں ان کو چاہیے کہ وہ مذکورہ عمل کی تصحیح کو اپنی روزانہ کی زندگی میں شامل کرلیں۔ اس کے سوا اس مسئلہ کا کوئی اور حل موجود نہیں۔