صبر وتقویٰ
قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ اس دنیا کی ہر چیز ہم نے جو ڑا جو ڑاپید اکی ہے (51:49)۔ یہ فطرت کا ایک آفاقی اصول ہے۔ یہاں جب بھی کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے وہ دوچیزوں کے تعامل سے رونما ہوتا ہے۔ کوئی بھی چیز تنہااس دنیا میں کوئی واقعہ یا نتیجہ ظاہر نہیں کر سکتی ۔
اس اصول کا تعلق اجتماعی زندگی سے بھی ہے۔ اسی کو ایک پرانی مثل میں اس طرح بیان کیاگیا ہے کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی ۔ایک آدمی اپنا ہاتھ فضا میں ہلا تار ہے تو اس سے تالی نہیں بجے گی ۔ تالی بجنے کے لیے ضروری ہے کہ دوسراہاتھ اس سے ٹکرائے۔ جب تک دوسراہاتھ نہ اٹھے تالی کا بجنا بھی رکارہے گا۔
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ مخالف کی ضرررسانی کامعاملہ بھی یہی ہے ۔ مخالف کی ضرررسانی کا ارادہ اس وقت کامیاب ہوتا ہے جب کہ فریقِ ثانی بھی اپنی نادانی یا سادہ لوحی سے اس کے ساتھ تعاون کا معاملہ کر بیٹھے۔ فریقِ ثانی اگر ’’ دوسراہاتھ ‘‘ بننے سے رک جائے تو دشمن کی مخالفانہ تالی بھی بجنے والی نہیں۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ کچھ لوگ اہلِ اسلام کو نقصان پہنچانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان کو اہلِ اسلام سے سخت بغض اور عداوت ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ: وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ (3:120)۔ یعنی، اور اگر تم صبر کرو اور تقویٰ کی روش اختیار کرو تو ان کی کوئی تدبیر تم کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچائے گی۔ جو کچھ وہ کررہے ہیں ،اللہ نے ان سب کااحاطہ کر رکھا ہے۔
اس آیت کی تشریح اس طرح کی جا سکتی ہے کہ دشمن کی سازش صرف 50فی صد کی حدتک کارگر ہے۔ وہ اپنی تکمیل تک صرف اس وقت پہنچتی ہے جب کہ فریقِ ثانی اپنی کسی غلطی سے اس کے منصوبہ کا بقیہ 50فی صدحصہ پورا کردے۔ صبر وتقویٰ اس بات کی ضمانت ہے کہ اس کے منصوبہ کایہ بقیہ نصف حصہ دشمن کو حاصل نہ ہو۔ جب ایسا ہو گا تو اس کی مخالفانہ تدبیر لازمی طور پر بے نتیجہ ہو کر رہ جائے گی۔
اس قانون کے تحت اللہ تعالیٰ نے آپ کے معاملہ کو خود آپ کے ہاتھ میں دے دیا ہے۔