نفرت، دہشت گردی
نفرت (hate)اور دہشت گردی (terrorism)دونوں ایک ہی حقیقت کے دو رخ ہیں۔ نفرت، منفی سوچ کا نتیجہ ہے، اور دہشت گردی منفی عمل کا نتیجہ۔ نفرت منفعل دہشت گردی (passive terrorism)ہے، اور دہشت گردی عملی نفرت(terrorism in action) کا نام ہے۔ منفی سوچ داخلی طورپر نفرت ہے اور خارجی اعتبار سے دہشت گردی۔ نفسیاتی اعتبار سے دیکھیے تو جو لوگ نفرت کی باتیں کرتے ہیں، وہ زیادہ بڑے مجرم ہیں۔ کیوں کہ یہ لوگ نفرت کی بولی بول کر لوگوں کو مشتعل کرتے رہتے ہیں اور یہی اشتعال مزید بھڑک کر دہشت گردی کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔
منفی سوچ کیا ہے۔ منفی سوچ نفسیاتی ہلاکت کا دوسرا نام ہے۔ جو لوگ انسانوں کے اندر منفی سوچ پیدا کریں، وہ انسانیت کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ کیوں کہ منفی سوچ آدمی کے اندر تعمیری سوچ کا خاتمہ کردیتی ہے۔ ایسے لوگ سماج کے اندر معتدل مزاج کے ساتھ نہیں رہ سکتے، اور جن لوگوں کے اندر تعمیری سوچ اور معتدل مزاج نہ ہو، وہ کبھی ترقی نہیں کرسکتے۔ اور اگر وہ ترقی کریں گے تو منافق بن کر ترقی کریں گے، یعنی دل میں تو لوگوں کو برا سمجھنا لیکن ظاہری طورپر لوگوں کے ساتھ مفاہمت (adjustment) کرکے اُن سے مادّی فائدہ اٹھانا۔
دہشت گردی بلاشبہ ایک بھیانک برائی ہے، لیکن دہشت گردی کو گن اور بم کی طاقت سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ دہشت گردی کو ختم کرنے کا مؤثر طریقہ صرف ایک ہے، اور وہ ہے لوگوں کی منفی سوچ کو بدلنا اور ان کے اندر مثبت سوچ پیدا کرنا۔ جب تک لوگوں کے ذہن کو نہ بدلا جائے، دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔منفی سوچ ہمیشہ شکایتوں کو لے کر پیدا ہوتی ہے۔ لوگ اِن شکایتوں کو کسی گروہ کی ’’سازش‘‘ سمجھ کر اُس گروہ کے خلاف ہو جاتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ شکایت، فطرت کے نظام کا حصہ ہے، شکایت کے اسباب کبھی ختم ہونے والے نہیں۔ اِس لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ شکایت سے اوپر اٹھ کر سوچا جائے، شکایت کے باوجود لوگوں سے خیر خواہی اور ہمدردی کا تعلق قائم کیا جائے۔