شکر یاسرکشی
ایک اچھی چیز آپ کو ملتی ہے ۔ اس کواگرآپ اپنی محنت اورقابلیت کانتیجہ سمجھیں توآپ کے اندر سرکشی کاجذبہ پیداہوگا۔ اوراگر آپ اس کو خد اکی طرف سے ملی ہوئی چیز سمجھیں تو آپ کے اندر شکر کاجذبہ جاگ اٹھے گا۔ پہلی کیفیت کانام گمراہی ہے اوردوسری کیفیت کانام ہدایت یابی ۔
موجودہ دنیاکو امتحان(test) کی مصلحت کے تحت بنایاگیاہے ۔دنیا کے تمام واقعات بلاشبہ اللہ کی مرضی سے اورا س کی پلاننگ کے تحت سے ہورہے ہیں ۔ مگر تمام واقعات پراسباب کاپردہ ڈال دیاگیاہے ۔ آدمی کا امتحان یہ ہے کہ وہ اسباب کے ظاہری پردہ کوہٹا کر اصل واقعہ کودیکھے اوراس پرایمان لائے ۔
آپ کے اندر ایک چیز کی طلب پیداہوتی ہے ۔ آپ اس کے لیے کوشش شروع کرتے ہیں۔آپ کی کوشش مختلف مراحل سے گزرتی ہے ۔ کہیں آپ اپنا ذہن استعمال کرتے ہیں کہیں اپنی عملی طاقت لگاتے ہیں اورکہیں اپنا اثاثہ خرچ کرتے ہیں ۔ اس طرح بظاہراسباب وعلل کے راستہ سے گزرتی ہوئی آپ کی کوشش اپنے انجام تک پہنچتی ہے ۔ آپ اپنے مقصود کوپالیتے ہیں ۔
اب اگر آپ کوصرف ظاہربیں نگاہ حاصل ہے تو آپ اپنی کامیابی کواپنی کوشش کانتیجہ سمجھیں گے لیکن اگرآپ کووہ نگاہ حاصل ہو جوباتوں کواس کی گہرائی کے ساتھ دیکھ سکے تو آپ جان لیں گے کہ جوہوا وہ خدا کے کیے سے ہوا ، یہ میراکوئی ذاتی کارنامہ نہیں ۔
یہی وہ مقام ہے جہاں آدمی کاامتحان ہورہاہے ۔ آدمی پرلازم ہے کہ وہ ظاہری پردہ کو پھاڑ کر اندرونی حقیقت کو دیکھے ۔ بظاہر اپنے ہاتھ سے ہونے والے کام کے بارے میں یہ دریافت کرے کہ وہ حقیقت میں خدا کے ذریعہ انجام پارہاہے ۔ جولوگ اس بصیرت کاثبوت دے سکیں وہی معرفت والے لو گ ہیں اورجولوگ اس بصیرت کاثبوت نہ دیں وہی وہ لوگ ہیں جو معرفت سے محروم رہے۔