نصف ِ ثانی کی سیاست
کچھ مسلم نوجوان مجھ سے ملنے کے لیے آئے۔ وہ نہایت جوش میں تھے اور ’’غیر قوم‘‘ کے ظلم کی شکایت بیان کررہے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہم کو اِس ظلم کے خلاف کچھ کرنا چاہیے۔ میں نے کہا کہ اِس معاملے میں آپ کو سب سے پہلے یہ کرنا ہے کہ آپ اُس کو ظلم سمجھنا چھوڑ دیں۔ آپ دوسروں کے خلاف احتجاج کرنے کے بجائے خود اپنے آپ پر نظر ثانی کریں۔
میں نے کہا کہ آپ سب نوجوان لوگ ہیں۔ اگر میں آپ کو مارنے لگوں تو آپ کیا کریں گے۔ آپ میرے اوپر جوابی حملہ کریں گے اور مار کر چلے جائیں گے۔ اب اگر میں لوگوں سے یہ کہوں کہ کچھ مسلم نوجوان میرے پاس آئے تھے، وہ مجھ کو مار کر بھاگ گئے، تو یہ جھوٹ ہوگا۔ کیوںکہ اصل حقیقت یہ ہوگی کہ میں نے آپ کو مارا، اس کے بعد آپ نے جوابی طور پر مجھ کو مارا۔ ایسی حالت میں اصلی قصور وار میںہوں۔ اگر میں اپنی بات نہ کہوں اور آپ نے جو کچھ کیا، میں صرف اُس کو دہراؤں تو یہ اصل واقعے کے نصف حصے کو دہرانا ہوگا۔ یہ کہانی کے نصف اول (first half)کو چھوڑ کر اس کے نصف ثانی (second half)کا چرچا کرنا ہوگا، اور اِس طرح نصف ثانی کا چرچا کرنا، عقل کے بھی خلاف ہے، اور اسلام کے بھی خلاف۔
موجودہ زمانے کے تمام لکھنے اور بولنے والے لوگ اِسی کے مطابق لکھتے اور بولتے ہیں۔ وہ نصف ثانی کی سیاست چلارہے ہیں۔ اِس قسم کی سیاست اور صحافت، یا اِس قسم کا جلسہ اور جلوس بلا شبہ لغو بھی ہے اور غیر مفید بھی۔ عقل اور شریعت کے اعتبار سے وہ ایک مجرمانہ کام کی حیثیت رکھتا ہے، اور نتیجے کے اعتبار سے وہ سرتاسر بے فائدہ کام ہے۔ اس قسم کی نصف ثانی کی سیاست کاکوئی مثبت نتیجہ اِس دنیا میں نکلنے والا نہیں۔ مزید یہ کہ آخرت کے اعتبار سے وہ ایک گناہ کا کام ہے۔ قرآن کی اصطلاح میں وہ تطفیف (83:1) ہے۔ اور قرآن کے مطابق، جو لوگ تطفیف کا عمل کریں، اُن کے لیے قانونِ الٰہی میں صرف وَیل مقدر ہے، نہ کہ کوئی خیر۔