1جنوری 1985
مولانا عبد الرشید ندوی نے ایک دلچسپ واقعہ بتایا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں ایک بڑے دینی ادارے کا ایک وفد برماگیا۔ اس وفد میں کئی بڑے علما اور دوسرے بڑے مسلم رہنما شامل تھے۔ اُس زمانے میں ہندستان کے دینی ادارے چندہ (donation)کے لیے برما اور ملایا (Malaya) جایا کرتے تھے۔
اس وقت ہندستان کے لوگ کثیر تعداد میں وہاں رہتے تھے،لیکن ان میں اکثریت بدعتی خیال لوگوں کی تھی۔ یہ وفد جب رنگون پہنچا توان لوگوں نے پوسٹروں وغیرہ کے ذریعے خوب مشہور کیا کہ یہ وہابی ہیں، یہ کافر ہیں، وغیرہ۔ ان کو ہر گزچندہ نہ دیا جائے۔ جو چندہ دے گا وہ گنہ گار ہوگا۔ بدعتی طبقہ کے پروپیگنڈوں سے فضا بہت خراب ہوگئی۔
تاہم جلسہ کیاگیا۔ سب سے پہلے ایک مقرر آئے۔ ان کے نام میں سلیمان لگا ہوا تھا۔ وہ بہت خوش بیان مقرر تھے۔ انھوں نے کہاکہ بھائیو، اور لوگوں کو تو تم جانو اور وہ جانیں۔ مگر جہاں تک میرا تعلق ہے تو میرے بارے میں خود اللہ تعالیٰ نے قرآن میں پہلے ہی براءت اتاردی ہے۔ چنانچہ قرآن میں یہ آیت موجود ہے:وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا(2:102)۔ یعنی سلیمان نے کفر نہیں کیا، بلکہ یہ شیاطین تھے جنھوں نے کفر کیا۔
وہ بہت خوش گلو تھے۔ انھوں نے قرآن کی آیتیں پڑھیں ۔ مولانا روم (1207-1273ء) کے اشعار سنائے۔ اب فضا بالکل بدل گئی۔ آخر میں انھوں نے لوگوں کو کھڑا کرکے سلام پڑھوایا۔ اس کے بعد بالکل تصدیق ہوگئی کہ یہ لوگ ’’وہابی‘‘ نہیں ہیں۔اس کے بعد رنگون میں خوب چندہ ہوا۔ تیرہ لاکھ روپیے جمع ہوئے۔لوگوں کی مایوسی دوبارہ خوشی میں تبدیل ہوگئی۔
عوامی مقبولیت حاصل کرنے میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اس قسم کے الفاظ بولنا جانتے ہوں۔ تاہم یہ مقبولیت وقتی ہوتی ہے۔ نیز اس کے ذریعہ کوئی گہرا تعمیری کام نہیں کیا جاسکتا۔