26اپریل 1985
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں اپنی دعوت کا آغاز کیا۔ وہاں آپ تقریباً 13سال رہے۔ مکہ والوں نے آپ کی سخت مخالفت کی۔ یہاں تک کہ وہ آپ کو ہلاک کرنے کے درپے ہوگئے۔ عین اسی وقت مکی دور کے آخری زمانے میں قرآن میں سورہ یوسف اتری۔ اس میں بتایا گیا کہ یوسف کے بھائی یوسف کے دشمن ہوگئے۔ انھوں نے ان کو ختم کرنے کے لیے ایک سنسان مقام پر لے جاکر ان کو اندھے کنویں میں ڈال دیا۔ یہاں تاجروں نے ان کو کنویں سے نکالا، اور ان کو لے جاکر مصر پہنچادیا۔ وہاں ان کے لیے اعلیٰ ترقی کی نئی راہیں کھلیں۔ ایک اُسوءُ القصص احسن القصص میں تبدیل ہوگیا۔
مکی دور کے آخر میں اس سورہ کا اترنا اس بات کا اشارہ تھا کہ پیغمبر اسلام کے ساتھ خداکی مدد سے یہی معاملہ پیش آئے گا۔ چنانچہ یہی ہوا کہ مکہ والوں نے آپ کو ہلاکت کے غار میں ڈالنا چاہا مگر عین اسی وقت مدینہ میں آپ کے قدرداں پیدا ہوگئے۔ آپ ان کی دعوت پر مکہ سے مدینہ پہنچ گئے اوروہاں آپ نے اسلام کی نئی تاریخ بنائی۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا میرے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ معاملہ پیش آنے والا ہے۔میں 1956 سے 1962 تک جماعتِ اسلامی کے مرکزی شعبۂ تصنیف وتالیف سے وابستہ تھا۔ اس کے بعد 1963 سے 1966تک مجلس تحقیقات ونشریات اسلام(ندوۃ العلماء) لکھنؤ سے وابستہ رہا۔ دونوں جگہ یہ صورت پیش آئی کہ وہ لوگ میری تنقیدوں سے برہم ہوگئے۔ میرا غیر مصالحانہ انداز ان کے لیے ناقابلِ برداشت ہوگیا۔ چنانچہ دونوں جگہ سے علیحدگی عمل میں آئی۔ اس کے بعد جمعیۃ علماء کی دعوت پر میں 1967 میں دلی آیا، اور جمعیۃ علما ہند کے ہفت روزہ اخبار الجمعیۃ سے وابستہ رہا۔ یہاں بھی ابتدائی چند سالوں کے بعد اختلافات پیدا ہوگئے۔ یہاں تک کہ 1974میں انھوں نے مجھ کو الگ کر دیا۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے دلی کے مرکزی شہر میں ٹھہرانے کا انتظام کیا اور ایسے اسباب پیدا کیے کہ 1976میں الرسالہ جاری ہوا۔ اور اب خدا کے فضل سے اسلامی مرکز کی صورت میں اس نے ایک مستقل ادارے کی شکل اختیار کرلی ہے اور لوگوں کی مخالفتوں کے باوجود وہ دن بدن ترقی کررہا ہے۔ شاید تاریخ دوبارہ یہ منظر دیکھنے والی ہے — ایک اَسوءُ القصص خدا کی مدد سے احسن القصص میں تبدیل ہوگیا۔