2اپریل 1985

پاکستان کے سفر میں میری ملاقات ایک صاحب سے ہوئی۔ یہ ایک مشہور شخصیت ہیں، اور پاکستان میں ’’غلبۂ اسلام‘‘ کی تحریک چلا رہے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ پاکستان میں غیر مسلم (ہندو اور عیسائی) قابل لحاظ تعداد میں موجود ہیں۔ کیا ان کے درمیان کوئی تبلیغِ اسلام کی تحریک چل رہی ہے۔ میرا یہ سوال سن کر وہ مسکرائے اور پھر کہا: یہاں غیر مسلموں کی فکر کون کرتا ہے۔

مجھے ان کے اس جواب سے بہت دھکا لگا۔ میرے ليے یہ تجربہ بڑا اندوہ ناک تھا کہ جو لوگ غلبۂ اسلام کی باتیں کرتے ہیں، ان کو صرف اسلام کے سیاسی غلبہ سے دلچسپی ہے۔ خدا کے بندوں کو جہنم کی آگ سے بچانے کی انھیں کوئی فکر نہیں۔میرا قطعی یقین ہے کہ غلبہ اسلام کی بات کو اگر دعوت اسلام سے الگ کردیا جائے تو وہ صرف ایک قومی نعرہ بن جاتا ہے۔ دعوت اسلام سے الگ کرنے کے بعد غلبۂ اسلام کے نعرے کی کوئی حقیقت نہیں۔

اس قسم کی تحریک عین وہی ہے، جو یہودیوں کے اندر چل رہی ہے۔ یہودیوں کی تحریک صہیونیت (Zionism) گویا حضرت موسی کے دین سے ہدایت کو الگ کرکے صرف سیاست کو لے لینا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں میں جو لوگ حقیقی معنوں میں دعوتی جذبہ نہیں رکھتے، البتہ غلبہ اسلام کے موضوع پر پرجوش تقریریں کرتے ہیں، وہ درحقیقت قومی دین پر ہیں ،نہ کہ خدائي دین پر۔ انھوں نے دین کے دعوتی حصہ کو الگ کرکے اس کے سیاسی حصہ کو لے رکھا ہے، اور یہ عین وہی چیز ہے جو یہودیوں کے یہاں پائی جاتی ہے، فرق صرف یہ ہے کہ یہودی اپنی روایات میں بولتے ہیں، اور مسلمان اپنی روایات میں۔

جو مسلمان سیاسی طور پر غلبۂ اسلام کے علم بردار ہیں، وہ بظاہر دعوت کا لفظ بھی بولتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلامی تحریک کے تین مرحلے ہیں— دعوت، ہجرت، جہاد۔ مگر دعوت سے ان کی مراد اس دنیا کے اندراپنے سیاسی اسلام کے ليے فضا تیار کرنا ہے، نہ کہ اللہ کے بندوں کو اللہ کے منصوبۂ تخلیق سے باخبر کرنا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom