23اپریل 1985
ڈاک سے ایک لفافہ موصول ہوا۔ اس میں ایک دینی ادارے کے ہفت روزہ میگزین کے ایک صفحے کی فوٹو کاپی تھی۔ یہ مضمون ادارے کے بانی کے بارے میں ہے۔اس مضمون کا عنوان ہے:
چراغ عالم اسلام تھے
اس عنوان کے نیچے جو مضمون ہے وہ گویا نثر میں شاعری ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مضمون نگار نے نعت کے تمام شاندار الفاظ بانیٔ ادارہ کی قصیدہ خوانی میں صرف کردیئے ہیں۔
اس مضمون کو دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ میری وفات کے بعد جو لوگ میری تعریف میں اس قسم کے قصیدے لکھیں گے، وہ میرے جھوٹے ماننے والے ہوں گے۔ میرے حقیقی ماننے والے وہ ہیں، جو میرے مشن کو لے کر آگے بڑھیں، جو میرے اس دنیا سے جانے کے بعد اس دینی جدوجہد کے لیے پہلے سے زیادہ سرگرم ہوجائیں۔
میرا کام اللہ کے سچے دین کا اعلان واظہار ہے۔ میری ساری دلچسپی صرف اس بات سے ہے کہ اللہ کی بڑائی بیان کی جائے ۔ پیغمبر اسلام کی لائی ہوئی ہدایت کو آج کے انسانوں تک پہنچایا جائے۔ لوگوں کو آنے والے ہولناک دن سے ہوشیار کیا جائے۔میرے بعد جولوگ میرے اس مشن کے لیے سرگرم ہوں وہی میرے سچے ساتھی ہیں۔ اور جو لوگ نظم و نثر میں میری تعریف کریں، ان سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ ان کی راہ الگ ہے اور میری راہ الگ۔