27مارچ 1985
قدیم مفسرین کا طریقہ یہ ہے کہ وہ قرآنی آیتوں کے ذیل میں شان نزول کی روایات بیان کرتے ہیں۔ فراہی اسکول اس طریقِ تفسیر کا مخالف ہے۔ وہ شان نزول کی روایتوں کی روشنی میں قرآن کی تشریح کرنا صحیح نہیں سمجھتا۔
مثال کے طورپر سورۃ حجرات کی ابتدائی آیات کے ذیل میں قدیم تفسیروں میں ولید بن عقبہ کا قصہ نقل ہوا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر تدبر قرآن میں اس پر سخت گرفت کی ہے اور اس کو بے بنیاد قرار دیا ہے(ملاحظہ ہو تدبر قرآن جلد 6، صفحہ 495-97)۔
یہ لوگ اس طریق تفسیر کی مخالفت اس لیے کرتے ہیں کہ شانِ نزول کی روایتوں کو ماننے کی صورت میں گویا قرآن محض خاص انفرادی واقعات سے متعلق ہو کر رہ جاتا ہے۔ ان کے نزدیک اس سے قرآن کی وسعت اور ابدیت مجروح ہوتی ہے۔
مگریہ محض ایک غلط فہمی ہے۔ اگر ہم یہ مانیں کہ قرآن کی فلاں آیت فلاں خاص واقعہ پیش آنے پر اتری تو اس سے قرآن کی وسعت اور ابدیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن حالات کے ذیل میں اترا ہے(الفرقان، 25:33)، نہ کہ عام تصنیف کی طرح یکبارگی لکھ کر ایک مکمل کتاب کی صورت میں اتار دیاگیا ہو ۔
شانِ نزول کی روایتوں کا مطلب صرف یہ ہے کہ مکہ یا مدینہ کے سماج میں ایک واقعہ گزرا۔ اس سے زندگی کے ایک معاملے کے بارے میں سننے اور جاننے کی فضا پیدا ہوئی۔ اس وقت اللہ نے اس واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے قرآن میں اپنا حکم نازل فرمایا۔ یہ حکم ایک اعتبار سے مخصوص واقعہ کے بارے میں شریعت الٰہی کا اظہار تھا اور دوسرے اعتبار سے وہ ایک اصولی ہدایت تھی جو قیامت تک تمام انسانوں کے لیے رہنما بنے۔