16مارچ 1985
اسلام پر روایتی عقیدہ کافی نہیں۔ اسلامی تعلیمات کو جب آپ روایتی الفاظ میں بیان کرتے ہیں، تو وہ صرف روایتی عقیدہ کے طورپر ذہن میں داخل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، جب اس کو وقت کی زبان میں بیان کیا جائے تو وہ سننے والے کی نفسیات کا جزء بن جاتا ہے۔ ایک ناقابلِ فہم منتر آپ کسی کو یاد کراسکتے ہیں، مگر ایسا منتر آدمی کی نفسیات میں شامل نہیں ہوگا۔ وہ بس اوپر اوپر رہے گا، اور کوئی عقیدہ جب تک نفسیات میں شامل نہ ہو ،وہ آدمی کے اندرون کو نہیں جگاتا، وہ اس کی قوت محرکہ نہیں بنتي۔
اسلامی تعلیمات کو وقت کے اسلوب میں بیان کرنے کی چند مثالیں یہ ہیں۔مثلاً سورہ عنکبوت (آیت 2)میں ہے کہ خدا صرف آمنّا (ہم ایمان لے آئے) کہنے پر آدمی کو نہیں چھوڑ دیتا، بلکہ وہ اس کی آزمائش کرتا ہے۔ اگر آپ آیت کا صرف ترجمہ کردیں، تو وہ جدید ذہن کے ليے کافی نہیں ہوگا۔ مگر جب آپ اس کو ان الفاظ میں بیان کریں ------- آدمی نارمل (normal)حالات میں جو کچھ کرتاہے، اس پر اللہ کے یہاں فیصلہ نہیں ہوگا، بلکہ اس عمل پر ہوگاجو وہ ابنارمل (abnormal) حالات میں کرتا ہے، تو وہ فوراً جدید انسان کی سمجھ میں آجاتا ہے۔
اسی طرح قرآن میں ہے: فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ (25:70)۔ یعنی اللہ اُنکی برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دے گا۔ اس کی تشریح آپ ان لفظوں میں کریں کہ خدا آدمی کے ڈس ایڈوانٹج کو ایڈوانٹج میں تبدیل کردیتا ہے۔ یہ تشریح بآسانی جدید ذہن کے ليے قابلِ فہم ہوجائے گی۔اسی طرح عورت اور مرد کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں :بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ(3:195) ۔یعنی تم سب ایک دوسرے سے ہو۔ اگر اس کی وضاحت آپ ان الفاظ میں کریں تو آج کا انسان فوراً اس کی حقیقت کو پالے گا کہ اسلام کے نزدیک عورت اور مرد ایک دوسرے کا تکملہ (supplement)ہیں، نہ کہ ایک دوسرے کا مثنیٰ (counterpart)۔