11مارچ 1985
قرآن کی سورہ الفتح (آیت 10) میں ہے:وَمَنْ أَوْفَى بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ(48:10)۔ یعنی اور جو شخص اس عہد کو پورا کرے گا، جو اس نے اللہ سے کیا ہے۔
یہاں عربی نحو کے عام قاعدہ کے مطابق عَلَیہُ کی ’’ه‘‘ زیر ہونا چاهيے، یعنی عَلَيْهِ پڑھا جانا چاهيے، نہ کہ عَلَيْهُ۔اس غیر معمولی اعراب پر تفسیر کی کتابوں میں لمبی بحثیں کی گئی ہیں، اور مختلف طریقوں سے اس کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔مگر ایک اہم پہلو اور ہے، جو تفسیر کی کتابوں میں نہیں آیا ہے۔ وہ ہے قرآن کا کامل طورپر محفوظ ہونا۔
قرآن کو صحابہ کرام نے اور بعد کے لوگوں نے کامل طورپر محفوظ رکھنے کا انتہائی حد تک اہتمام کیا ہے۔حتی کہ اس کی آواز کو بھی پوری طرح محفوظ رکھا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب قرآن کا کوئی حصہ اترتا، تو اسی وقت فوراً اس کو لکھ لیا جاتاتھا۔
اسی کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت نماز کے اندر یا نماز کے باہر جس طرح ہوتی تھی، اس کی کامل نقل کی جاتی تھی۔چنانچہ اس آیت میں صحابہ نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عَلَیہُ پڑھتے ہوئے سنا، تو عین اسی طرح اس کو محفوظ کرلیااور بعد کی نسلوں کو اسی طرح منتقل کرتے رہے۔
قرآن کے بعد جو نحو مرتب ہوئی اس میں ایسے موقع پر زیر کا اصول درج کیاگیا، یعنی عَلَيْهِ۔ مگر چودہ سو سال تک کسی نے ایسا نہیں کیا کہ معروف نحوی قاعدہ کے مطابق بنانے کے ليے قرآن میں اس آیت کو عَلَيْهِ لکھے یا اس کو عَلَيْهِ پڑھے۔ سیکڑوں سال سے یہ آیت اسی طرح لکھی اور پڑھی جارہی ہے، جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پڑھ كر سنایا تھا۔کیسا عجیب یہ اہتمام ہے، جو قرآن کی حفاظت کے ليے کیا گیا ہے۔