23 اکتوبر 1985
قدیم زمانے میں اپنی محبوب شخصیت کو بڑھانے اور اپنی ناپسندیدہ شخصیت کو گھٹانے کے لیے بہت سے قصے گھڑے گئے۔ ایک مثال یہ ہے:
کہاجاتا ہے کہ امام ابو حنیفہ (80-150ھ) تحصیلِ علم کے لیے مدینہ گئے۔ وہاں ان کی ملاقات امام باقر (57-114ھ) سے ہوئی۔ تعارف کے بعد امام باقر نے کہا۔ کیا تم ہی قیاس کی بنا پر ہمارے دادا کی حدیثوں کی مخالفت کرتے ہو۔ ابو حنیفہ نے کہا عیاذ باللہ، حدیث کی کون مخالفت کرسکتا ہے۔ پھر مختصر گفتگو کے بعد دونوں میں حسب ذیل مکالمہ ہوا:
ابو حنیفہ : مرد ضعیف ہے یا عورت
امام باقر: عورت
ابو حنفیہ : وراثت میں مرد کا حصہ زیادہ ہے یا عورت کا۔
امام باقر: مرد کا
ابو حنیفہ: اگر میں قیاس لگاتا تو کہتا کہ عورت کو زیادہ حصہ دیا جائے۔ کیوں کہ ظاہر قیاس کی بناپر ضعیف کو زیادہ ملنا چاہیے۔
امام باقر اس گفتگو کو سن کر بہت خوش ہوئے اور اٹھ کر ان کی پیشانی چومی۔
نقدِ داخلی بتا رہا ہے کہ یہ ایک بناوٹی قصہ ہے۔ امام باقر نے امام ابوحنیفہ پر جو الزام لگایا وہ حدیث کو رد کرنے کا تھا، نہ کہ قرآن کو رد کرنے کا۔ جب کہ مذکورہ گفتگو کے مطابق امام ابو حنیفہ نے جو مسئلہ بیان کیا، وہ قرآن سے ثابت ہے۔ اس کا انحصار حدیث پر نہیں۔ امام ابو حنیفہ جیسا ذہین آدمی یہ نہیں کرسکتا کہ سوال حدیث کے بارے میں کیا جائے اور وہ جواب قرآن کے بارے میں دینے لگے۔
اس قسم کے جھوٹے قصے کہانیوں نے ہمارے بیشتر لٹریچر کو غیر سائنٹفک بنا دیا ہے۔ ان سے عقیدت مندی کا مزاج رکھنے والا آدمی تو فائدہ اٹھا سکتا ہے مگرعلمی ذوق رکھنے والے آدمی کے لیے اس کی افادیت بہت کم ہے۔