5اپریل 1985
مجھے کبھی کبھی احساس ہوتا ہے کہ میں ایک پیدائشی سائنس داں (born scientist) ہوں، ٹکنکل معنوں میں نہیں بلکہ مزاج کے معنوں میں۔
سائنٹسٹ خارجی حقیقت کا مطالعہ کرتا ہے، اور اس کو انتہائی درست زبان (precise language) میں بیان کرتاہے۔ سائنس داں کی کامیابی یہ ہے کہ وہ خارجی حقیقت کو ویسا ہی بیان کردے جیسا کہ وہ فی الواقع ہے۔اس سے سائنس داں کے اندر حقیقتِ واقعہ سے مطابقت کا مزاج پیدا ہوتا ہے۔ سائنسی مزاج (scientific temper) دراصل حقیقت واقعہ سے مطابقت ہی کا دوسرا نام ہے۔
حقیقتِ واقعہ سے مطابقت کا مزاج میرے اندر بچپن سے پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی ميں کسی کی کوئی بات نقل کرتا ہوںتو آخري حد تک کوشش کرتا ہوں کہ وہی بات نقل کروں، جو کہنے والے نے کہی ہے۔ تاکہ اصل اور نقل میں یکسانیت باقی رہے۔ جب میں کسی کے فکر پر تنقید کرتاہوں تو اس کو بار بار پڑھتا ہوں، تاکہ میری تنقید عین اسی بات پر ہو جو پیش کرنے والے نے پیش کی ہے، نہ کہ کسی دوسری بات پر۔
اپنے اس مزاج کی وجہ سے اکثر میں یہ کرتارہا ہوں کہ جب مجھے اسلام کے موضوع پر کوئی مقالہ یا کتاب لکھنا پڑا تو میں اس سے پہلے پورے قرآن کو ایک بار پڑھتا ہوں۔ قرآن کو بار بار پڑھنے کے باوجود ہر نئے موقع پر میں پھر سے اس کو ایک بار پڑھتا ہوں، تاکہ میری بات عین قرآن کے مطابق رہے، دونوں کے اندر نامطابقت پیدا نہ ہونے پائے۔
میرا یہ مزاج اتنا بڑھا ہوا ہے کہ وہ ہر معاملہ میں ظاہر ہوتا ہے۔ حتی کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک معمولی خط کا جواب دیتے ہوئے میں اس خط کو کئی بار پڑھتا ہوں۔ مکتوب نگار کا منشا اچھی طرح سمجھنے سے پہلے میں اس خط کا جواب نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ میرے اوپر لوگوں نے بے شمار تنقیدیں کی ہیں مگر آج تک کوئی یہ نہ کہہ سکا کہ میں نے اس کی بات کو غلط شکل میں پیش کیا ہے۔