30اپریل 1985
موجودہ زمانے کے مسلم قائدین کا معاملہ نہایت عجیب ہے۔ وہ بیک وقت نہایت کامیاب تھے، اور اسی کے ساتھ نہایت ناکام بھی۔مثلاً1952میں مصر کی اخوان المسلمون جنرل محمد نجیب (1901-1984) اور جمال عبد الناصرحسین(1918-1970) کے ساتھ مل کرمصر سے شاہ فاروق (1920-1965) کو معزول کرنے میں پوری طرح کامیاب ہوئے۔ لیکن اس کے بعد انھوں نے مصر کے الیکشن میں حصہ لیا تو وہ بالکل ناکام ہوگئے۔جماعت اسلامی پاکستان جنرل ایوب خان (1907-1974)اورذوالفقار علی بھٹو (1928-1979)کی حکومت ختم کرنے میں نہایت کامیاب رہی۔ مگر جب وہ لوگ الیکشن کے میدان میں آئے تو وہ کامیاب نہ ہوسکے، وغیرہ وغیرہ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک شخص جب شاہ فاروق یا ایوب اور بھٹو کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے اٹھتا ہے تو وہ اکیلا نہیں ہوتا۔ پوری اپوزیشن اور تمام مخالف حکومت عناصر اس کے ساتھ شریک ہوجاتے ہیں۔ حکومت کے خلاف مہم میں آدمی کی طاقت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے قائدین اینٹی حکومت مہم میں کامیاب رہے۔اس کے بعد جب یہ لوگ ملک میں خود اپنا اقتدار قائم کرنے کے لیے اٹھے تو اس وقت وہ تنہا تھے۔ اس دوسری مہم میں انھیں اپنی تنہا قوت سے کامیاب ہونا تھا۔ چوں کہ ان کی تنہا قوت بہت کم تھی اس لیے وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکے۔
اینٹی حکومت مہم میں جو مقبولیت حاصل ہوتی ہے، وہ بلا شبہ جھوٹی مقبولیت ہے۔ اس قسم کی مہم کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ محض شخصی لیڈری ہے، نہ کہ کوئی واقعی کام۔ اینٹی حکومت مہم میں فوراً مقبولیت حاصل ہوجاتی ہے، اس لیے لوگ تیزی سے اس کی طرف دوڑتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں مثبت مہم میں عوامی مقبولیت حاصل نہیں ہوتی۔ اس لیے اس کا میدان سونا پڑا ہوا ہے۔ اس میدان میں کوئی دکھائی نہیں دیتا۔