6جولائی 1985
صحابہ کرام کے اقوال جو کتابوں میں آئے ہیں،وہ حد درجہ حکمت کی باتیں ہیں۔ یہ معلوم ہے کہ کسی صحابی نے بھی کسی یونیورسٹی میں تعلیم نہیں پائی تھی۔ پھر یہ علم ان کے اندر کہاں سے آیا۔ یہ علم ان کے اندر تقویٰ نے پیدا کیا۔ تقویٰ خود علم ہے۔جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اس کا سینہ علم کے لیے کھول دیا جاتا ہے۔ چنانچہ مسروق تابعی نے کہا:كَفَى بِالْمَرْءِ عِلْمًا أَنْ يَخْشَى اللَّهَ(الطبقات الکبریٰ لابن سعد، جلد6، صفحہ142)۔یعنی آدمی کے علم کے لیے کافی ہے کہ وہ اللہ سے ڈرے۔صحابہ کرام اس علم خاص کی اعلیٰ ترین مثال ہیں۔ حضرت عمر فاروق کا ایک قول ہے:مَنْ كَثُرَ ضَحِكُهُ قَلَّتْ هَيْبَتُهُ، مَنْ مَزَحَ اسْتُخِفَّ بِهِ(المعجم الکبیر للطبرانی، اثرنمبر 2259)۔ یعنی جو آدمی زیادہ ہنسے اس کا رعب کم ہوجائے گا۔ اور جو شخص ہنسی مذاق کرے گا، وہ لوگوں کی نظر میں ہلکا ہوجائے گا۔
حضرت عمر کے اس قول میں جو حکمت ہے اس کی تشریح کی ضرورت نہیں۔