8جون 1985
برطانی قوم کا ایک بڑا عجیب واقعہ ہے، جس میں دوسروں کے لیے زبردست سبق پایا جاتا ہے۔ سیکنڈ ورلڈ وار (1939-45) میں برطانیہ کے وزیر اعظم مسٹر ونسٹن چرچل (1874-1965) تھے۔ انھیں کی قیادت میں برطانیہ نے اس جنگ میں فتح حاصل کی تھی۔ مگر جنگ کے فوراً بعد جب برطانیہ میں الکشن ہوا تو اہل برطانیہ نے مسٹر چرچل کو الکشن میں شکست دے کر مسٹر کلیمنٹ اٹلی (1883-1967)کو ملک کا وزیر اعظم بنادیا۔ فاتح کو عین ا س کی فتح کے بعد معزول کردیا گیا۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت برطانیہ عظمی کے نوآبادیاتی علاقوں میں آزادی کی تحریک اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی۔ جنگ کے بعد برطانیہ اس قابل نہ تھا کہ وہ ہندستان اور دوسرے نو آبادیاتی ممالک میں بزور اپنا اقتدار قائم رکھ سکے۔ برطانیہ کے باشعور طبقہ نے یہ فیصلہ کیا کہ نو آبادیاتی ممالک کو آزاد کردیا جائے۔ اس عمل کے لیے متشدد چرچل موزوں نہ تھے۔ بلکہ صلح پسند اٹلی موزوں تھے۔ چنانچہ اہل برطانیہ نے فاتح ہونے کے باوجود چرچل کو اقتدار سے ہٹا دیا اور مسٹر اٹلی کو ان کی جگہ ملک کا وزیر اعظم بنا دیا۔
مہاتما گاندھی (1869-1948) اور ہندستان کے دوسرے لیڈروں کے زمانے میں یہ واقعہ پیش آیا، اور اسی کے نتیجہ میں ملک بسہولت آزاد ہوگیا۔ مگر مہاتما گاندھی اور ان کے ساتھیوں نے خود اپنے لیے اس سے کوئی سبق نہیں لیا۔ہندستان میں جنگ آزادی کی قیادت شمالی ہند نے کی تھی۔ اس کے نتیجہ میں شمالی ہند کے لوگوں میں غیر معتدل قسم کا سیاسی مزاج بلکہ تخریبی مزاج پیدا ہوگیا۔ اس کے مقابلہ میں جنوبی ہند کا مزاج بالکل مختلف تھا۔ شمالی ہند میں اگر انتہا پسندانہ سیاست کا مزاج تھا تو جنوبی ہند میں مخصوص اسباب کے تحت حقیقت پسندانہ تعمیر کا مزاج۔
ان حالات میں مہاتما گاندھی کے لیے صحیح ترین بات یہ تھی کہ وہ آزاد ہندستان کا وزیر اعظم جنوبی ہند کے کسی شخص کو بنائیں۔ خوش قسمتی سے اس وقت کے جنوبی ہند میں سی راج گوپال اچاریہ (Chakravarti Rajagopalachari, 1878-1972) جیسا عظیم لیڈر موجود تھا۔ مگر مہاتماگاندھی نے جواہر لال نہرو کو آزاد ہندستان کا وزیر اعظم بنادیا۔ جن لوگوں نے جنگ کی قیادت کی تھی انھیں کو مہاتما گاندھی نے تعمیر کی قیادت بھی سونپ دی۔
مہاتما گاندھی نے آزادی ہند کی تحریک نہایت کامیابی کے ساتھ چلائی تھی مگر اسی کامیابی کے ساتھ وہ تعمیر ہند کی تحریک کی رہنمائی نہ کرسکے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر مہاتما گاندھی نے شمالی ہند کے جواہر لال نہرو کے بجائے جنوبی ہند کے راجہ گوپال آچاریہ کو ملک کا وزیر اعظم بنایا ہوتا تو آج ہندستان کی تاریخ یقینی طور پر بالکل دوسری ہوتی۔