24 اکتوبر 1985
خوارج کا یہ کہنا تھاکہ خلافت کسی قوم یا قبیلے کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ ہر وہ شخص خلیفہ بن سکتا ہے جس کے اندر خلافت کی شرطیں پائی جائیں۔بظاہر یہ ایک صحیح بات معلوم ہوتی ہے۔ مگر یہ صحابی رسول علی ابن ابی طالب کے الفاظ میں كَلِمَةُ حَقٍّ أُرِيدَ بِهَا بَاطِلٌ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 1066)کی مثال ہے، یعنی ایک حق بات جس سے باطل مطلوب ہے۔
اصل یہ ہے کہ عرب دو بڑے قبائلی گروہوں میں منقسم تھے — مُضَر اور ربیعہ۔ قریش کا تعلق مضر سے تھا ، اورخوارج زیادہ تر قبیلہ ربیعہ سے تعلق رکھتے تھے۔ قبیلہ مضر اور قبیلہ ربیعہ میں جاہلیت کے زمانے سے عداوت چلی آرہی تھی۔ صحابہ کرام نے جب عرب کے حالات کی رعایت کرتے ہوئے قریش میں سے خلیفہ کا انتخاب کیا تو قبیلہ ربیعہ کے لوگ بگڑ گئے۔ کیوں کہ قریش کا تعلق قبیلہ مضر سے تھا۔ ایسی حالت میں خوارج جو اصول پیش کرتے تھے، اس کا مقصد اپنے قبیلے کے حق میں خلافت کا استحقاق ثابت کرنا تھا، نہ کہ اہل تر شخص کے حق میں اس کا استحقاق ثابت کرنا۔