7 نومبر 1985
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی تقریریں سنیے یا ان کی تحریریں پڑھیے تو واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ان کی سوچ تمام تر قومی سوچ ہے۔ وہ خواہ قومی الفاظ بول رہے ہوں یا نظریاتی الفاظ، لیکن ان کی باتوں کا گہرائی کے ساتھ تجزیہ کیجیے تو اس کے اندر سے صرف ’’قومی اسلام‘‘ برآمد ہوگا۔
مسلمانوں کی قومیت اور دوسروں کی قومیت میں بس یہ فرق ہے کہ دوسرے لوگوں کے پاس اپنے اجتماعی تشخص کو بتانے کے لیے اگر قوم کا لفظ ہے تو مسلمان ’’خیر امت‘‘ کا پر فخر لفظ پائے ہوئے ہیں۔ دوسرے کے پاس اگر صرف کتاب ہے تو مسلمانوں کے پاس کتاب کامل ہے۔دوسروں کے پاس اگر ’’نبی‘‘ ہے تو مسلمانوں کے پاس افضل الانبیاء ۔ دوسروں کے لیے جہنم کا خطرہ ہوسکتا ہے مگر مسلمانوں کو یہ خوش قسمتی حاصل ہے کہ ان کے لیے جنت کے بہترین محلات پیشگی طورپر رزرو (reserve) ہوچکے ہیں— آہ، وہ مسلمان جو اپنے آپ کو دینِ خداوندی میں نہ ڈھال سکے، البتہ دین خداوندی کو اپنے آپ میں ڈھال لیا۔