4فروری 1985

ایس ایم عارف ندوی نے ایک واقعہ بتایا۔ انھوں نے کہا کہ قرول باغ (دہلی) میں حکیم اجمل خاں نے طبیہ کالج قائم کیا۔ اس کا بہت بڑا کیمپس تھا۔ مگر انھوں نے اس کے اندر مسجد نہیں بنائی۔ تقسیم ملک کے بعد اس کا بڑا حصہ شرنارتھیوں کی قیام گاہ بن گیا۔

1970 کے بعد یہاں کے مسلمانوں کو خیال ہوا کہ کالج کے کیمپس میں ایک مسجد بنائیں۔ انھوں نے بنانا شروع کیا۔ مگر جب دیواریں کھڑی ہوگئیں تو مقامی غیر مسلموں نے اعتراض کیا، اور کہا کہ یہاں جب پہلے مسجد نہیں بنائی گئی تو اب آپ کو یہاں مسجد بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ایک مسلمان نے اس کے بعد ایک تدبیر کی۔ اس نے خاموشی سے ایک پتھر تیار کرایا۔ اس پرکندہ کرکے لکھا ہوا تھا:

هذا المسجد وقف لعامّۃ المسلمین

اس نے اس پتھر کو مسجد کے پاس زمین میں گاڑدیا۔ اس کے بعد ایک روز زور شور کے ساتھ اعلان کیا کہ یہاںایک پتھر گڑا ہوا ملا ہے۔ ہندو جمع ہوئے۔ انھوں نے دیکھا کہ واقعی زمین سے ایک پتھر برآمد ہوا ہے، اور اس پر مذکورہ عبارت لکھی ہوئی ہے۔ اس کے بعد ہندو خاموش ہوگئے اور مسلمانوں نے وہاں باقاعدہ مسجد تعمیر کرلی۔

ہندو جب کہیں مندر بنانے والے ہوتے ہیں تو وہاں ان کا ایک بھگوان پرکٹ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں نے بھی اپنی مسجد کے حق میں ایک پتھر کو پرکٹ کرلیا۔ مذکورہ حالات میں مَیں اس تدبیر کو درست سمجھتا ہوں۔ مگر مسلمان جس تدبیر کو خود اپنے لیے پسند کرتے ہیں، وہی تدبیر اگر دوسرے لوگ کریں تو انھیں اس پر شور وغل نہیں کرنا چا ہیے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom