25مئی1985
قاسم رضوی (1902-1970) ’’آزاد حیدر آباد‘‘ کے علم بردار تھے۔ وہ بہت زور وشور کے ساتھ آزاد حیدر آباد کی تحریک چلا رہے تھے۔کسی ہندوسیاست داں نے ان سے کہا کہ آپ حیدرآباد کو آزاد حیدر آباد کیسے بنائیں گے جب کہ آپ چاروں طرف انڈین یونین سے گھرے ہوئے ہیں۔ قاسم رضوی نے جواب دیا:
’’ہم نہیں گھرے ہوئے ہیں، تم گھرے ہوئے ہو‘‘
پچھلے ایک سو سال سے بھی زیادہ عرصے سے مسلمان اسی قسم کی لفظ بازیوں میں لگے ہوئے ہیں۔ ایک کے بعد ایک ان کے درمیان ایسا لیڈر اٹھتا ہے جو خوب صورت الفاظ بول کر ان کے ذہن کو خراب کرتا رہتا ہے۔ میرے علم میں کوئی بھی لیڈر نہیں جس نے موجودہ زمانے میں مسلمانوں کو حقیقت پسندی کا سبق دیا ہو۔
اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ اس قسم کے جھوٹے الفاظ بولنے والے لیڈروں کو مسلمانوں میں ساتھ دینے والے بھی جوق در جوق مل جاتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ مسلمانوں کی جھوٹے فخر کی نفسیات ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا مزاج، ایک لفظ میں، جھوٹے فخر کا مزاج ہے۔ مذکورہ قسم کی باتوں سے جھوٹے فخر کے مزاج کو تسکین حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے مسلمان جس کو ایسا نعرہ لگاتے ہوئے دیکھتے ہیں اس کے پیچھے دوڑ پڑتے ہیں۔
موجودہ زمانے میں سب سے زیادہ مقبولیت اقبال کو حاصل ہوئی ہے۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ اقبال کی شاعری فخر ومباہات کی شاعری ہے۔ اقبال کی شاعری میں مسلمانوں کے جھوٹے فخر کو زبردست غذا ملتی ہے۔ اس لیے ہر چھوٹا بڑا آدمی اس کو گنگناتا ہے۔ اقبال کی یہ شاعرانہ بلند پروازی بھی کیسی عجیب ہے کہ جو قوم اپنے زوال یافتہ ذہنیت کے نتیجے میں مقتدی بننے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوچکی تھی اس کو انھوں نے الفاظ کی خود ساختہ دنیا میں امامت کے مقام پر بٹھا دیا:
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا