19 نومبر1985
پیغمبر اسلام کے حوالے سےقرآن میں ایک حکم ان الفاظ میں آیا ہے:وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِنْ شَيْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِمْ مِنْ شَيْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِينَ ۔ وَكَذَلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِيَقُولُوا أَهَؤُلَاءِ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنْ بَيْنِنَا أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاكِرِينَ (6:52-53)۔ یعنی اور تم ان لوگوں کو اپنے سے دور نہ کرو جو صبح وشام اپنے رب کو پکارتے ہیں، اس کی خوشنودی چاہتے ہیں۔ ان کے حساب میں سے کسی چیز کا بوجھ تم پر نہیں اور تمہارے حساب میں سے کسی چیز کا بوجھ ان پر نہیں کہ تم ان کو اپنے سے دور کرکے بےانصافوں میں سے ہوجاؤ، اور اس طرح ہم نے ان میں سے ایک کو دوسرے سے آزمایا ہے تاکہ وہ کہیں کہ کیا یہی وہ لوگ ہیں جن پر ہمارے درمیان اللہ کا فضل ہواہے۔ کیا اللہ شکر گزاروں سے خوب واقف نہیں۔
حق کے حامل اکثر وہ لوگ ہوتے ہیں جو ظاہر کے اعتبار سے کوئی امتیازی اہمیت نہیں رکھتے۔نیز بے آمیز حق کو اختیار کرتے ہی آدمی نیشنل مین اسٹریم سے نکل جاتاہے۔ یہ چیز بھی اس کو لوگوں کی نظر میں غیر اہم بنادیتی ہے۔ مگر یہ صورت حال باقی رہے گی یہاںتک کہ قیامت آجائے۔ کیوں کہ اس دنیا میں یہی اصل امتحان ہے کہ آدمی غیب (چھپی ہوئی حقیقتوں) کو پہچانے ۔ وہ کسی سچائی لانے والے انسان کو جوہر (خوبی) کی سطح پر پہچانے، نہ کہ محض ظاہر کی سطح پر۔