15اپریل 1985
جماعت اسلامی کے لوگوں نے مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی پر ایک کتاب چھاپی ہے جس کا نام ہے ’’ایک شخص ایک کارواں‘‘۔ اس کے مرتب جناب مجیب الرحمن شامی ہیں۔ اس کتاب میں مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کی صدر ایوب سے ملاقات کا ذکر ہے۔
اس میں بتایا گیا ہے کہ صدر ایوب نے اپنی ملاقات میں کہا ’’مولانا صاحب، آپ کی کتابیں میں نے پڑھی ہیں۔ واقعی آپ نے دین کی بہت خدمت کی ہے۔ مولانا صاحب میری ایک تجویز ہے۔ آپ جیسی بڑی علمی شخصیت کو اپنی عمدہ صلاحیتیں سیاست میں ضائع کرنے کے بجائے ان سے قومی تعمیر کا کوئی ٹھوس کام لینا چاہیے۔ اس غرض کے لیے میں چاہتا ہوں کہ ہم ملک کے اندر ایک شاندار اسلامی یونیورسٹی قائم کریں۔ آپ نے اخبارات میں پڑھا ہوگا کہ یہ یونیورسٹی میں نے بھاول پورمیں قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے لیے ابتدائی سرمایہ کے طورپر رواں بجٹ میں دو کروڑ روپیہ کی رقم مختص کردی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس یونیورسٹی میں بہترین استادوں اور عمدہ انتظامات کے ذریعے خالص دینی علوم اس طرح پڑھائے جائیں کہ اس یونیورسٹی سے فارغ ہونے والے طلبہ دنیا بھر میں اسلام کی تبلیغ کا فریضہ سنبھالیں۔ اس یونیورسٹی کی سربراہی کے لیے آپ کا نام میرے ذہن میں آیا ہے۔ کیا یہ اچھا نہ ہوگا کہ آپ سیاست کے جھنجھٹ سے الگ ہو کر اس کام کا بیڑا اٹھائیں، جو آپ کی اعلیٰ صلاحیتیوں کے مطابق آپ کا اصل کام ہے۔ میں یہ بیان کردوں کہ یونیورسٹی کے لیے ہم نے دوکروڑ روپیہ کا جو ابتدائی فنڈ مختص کیا ہے، وہ رقم اور حکومت کی طرف سے اس کے بعد ملنے والی تمام گرانٹ سب پر آپ کو اپنی صوابدید کے مطابق مکمل تصرف کا اختیار ہوگا۔ اور آپ کو قانوناً آڈٹ وغیرہ کی پابندی سے مستثنیٰ قرار دے دیا جائے گا۔‘‘ (ایک شخص ایک کارواں،نئی دہلی، 1981، صفحہ 100)
کتاب میں بتایا گیا ہے کہ مولانا ابو الاعلیٰ مودودی نے اس پیشکش کو قبول کرنے سے انکارکردیا۔یہ پاکستان میں ان کی اختیار کردہ سیاست کا قدرتی نتیجہ تھا۔جو لوگ سیاسی اپوزیشن میں انوالو (involve)ہوں ، ان کو مذکورہ قسم کے تعمیری کام کام نہیں لگتے ہیں۔حالاں کہ اصل کام یہی ہے کہ انسان اپنی کوششوں کو سیاسی ٹکراؤ کے میدان سے ہٹائے ،اور وہ اپنےآپ کو پوری طرح سماجی تعمیر کے کام میں لگادے۔