5جولائی 1985
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو حدیثیں وضع کی گئیں اس کے بہت سے محرکات تھے۔ ان میں سے ایک محرک دین کا مذاق اڑانا تھا۔مثلاًیہود ونصاری نے بعض چیزوں کو خودساختہ طور پر اپنا مذہبی شعار بنا لیا تھا۔اس معاملہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ہدایت کی کہ تم ان معاملات میں یہود ونصاری کا انداز اختیار نہ کرو بلکہ اس سے مختلف طریقہ اختیار کرو (خَالِفُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى)۔ صحیح ابن حبان، حدیث نمبر 2186۔
ایک شخص نے اس تعلیم کا مذاق اڑانے کے لیے ایک حدیث گھڑی اور کہا:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:لَا تَقْطَعُوا اللَّحْمَ بِالسِّكِّينِ فَإِنَّهُ مِنْ صَنِيعِ الْأَعَاجِمِ( سنن ابوداؤد، حدیث نمبر3778) ۔ یعنی گوشت کو چھری سے نہ کاٹو، کیوں کہ یہ عجمیوں کا طریقہ ہے۔ پیغمبرِ اسلام نے مذہبی شعار میں تشبہ سے منع کیا تھا۔ مگر کہنے والے نے ایک خود ساختہ مثال کے ذریعے اس کو مضحکہ خیز بنا دیا۔ اس قسم کی لاکھوں حدیثیں وضع کرکے لوگوں کے اندر پھیلا دی گئیں۔ تاہم اس سے دین محفوظ کو کوئی خطرہ نہیں۔
عباسی خلیفہ ہارون رشید (148-193ھ)کا واقعہ ہے۔ اس نے ایک حدیث وضع کرنے والے کو موت کی سزا دی تو اس نے کہاتھا:فأين أنت من ألف حديثٍ وضعتُها على نبيِّك؟ فقال له:أين أنت يا عدوَّ الله من أبي إسحاقَ الفَزاريّ وابن المبارك؟ فإنهما يتصفَّحانها فيُخرجانها حرفًا حرفًا (مرآة الزمان في تواريخ الأعيان، جلد 13، صفحہ 117)۔ یعنی تم کیسے ایک ہزار حدیثوں کو نکالوگے، جو میں نے تمھارے نبی پر گڑھی ہے۔ تو ہارون رشید نے کہا: اللہ کے دشمن تم ابو اسحاق الفزاری، اور ابن المبارک سے بچ نہیں سکتے، وہ دونوں اس کو غور سے دیکھیں گے، اور اس کو ایک ایک حرف کرکے نکال دیں گے۔یہ معاملہ صرف دو محدثین تک محدود نہیں ہے، ہارون رشید نے اس زمانے میں جاری ایک پراسس کی خبر دی، جس کو کثیر تعداد میں محدثین انجام دے رہے تھے۔