24مئی1985
بہت سی باتیں اس وقت سمجھ میں آتی ہیں جب کہ آدمی کا دل زندہ ہو اور اس کا شعور بیدار ہو۔ مسلمان موجودہ زمانے میں ایک ایسی قوم بن گئے ہیں، جو دل ودماغ کی زندگی سے محروم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان بہت سی باتوں کو سمجھ نہیں پاتے اور بدقسمتی سے جن باتوں کو وہ نہیں سمجھتے وہی وہ باتیں ہیں جو زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔مثلاً کبھی نہ کرنے کا نام کرنا ہوتا ہے۔ کبھی بولنا اس کا نام ہوتا ہے کہ آدمی چپ رہے، وغیرہ۔ یہ بلاشبہ زندگی کی سب سے زیادہ گہری حقیقت ہے۔ مگر وہ ایک ایسی چیز ہے، جس کے لیے بہت زیادہ گہری شخصیت درکار ہے۔
آدمی ایک ایسی مخلوق ہے جو لازماً مشغول رہنا چاہتا ہے۔وہ عین اپنی فطرت کے تحت ہر وقت کچھ نہ کچھ کرنے پر مجبور ہے۔ اس لیے نہ کرنے پر وہی شخص راضی ہوسکتا ہے جس کے پاس نہ کرنے کے وقت بھی کچھ کرنے کے لیے ہو۔ وہی انسان چپ رہ سکتا ہے جو خاموشی کے وقت بھی اپنے پاس بولنے کا سامان رکھتا ہو۔
الرسالہ میں اس قسم کی باتیں کہی جاتی ہیں تو موجودہ مسلمانوں کو وہ اجنبی معلوم ہوتی ہیں۔ اگر یہ مسلمان اندر سے خالی (preoccupied)نہ ہوتے بلکہ ان کے اندر کا وجود خدا کی معرفت سے ایک زندہ وجود بن چکا ہوتا تو انھیں یہ باتیں اجنبی نہ معلوم ہوتی۔
اس وقت وہ جان لیتے کہ آدمی جب چپ ہوتا ہے تو وہ اپنے خدا سے سرگوشیاں کرنے لگتا ہے۔ باہر کی دنیا میں جب بظاہر اس کے قدم رک جاتے ہیں تو وہ اپنے اندر ہی اندر مارچ کرنے لگتا ہے۔ خارجی تدبیروں سے جب وہ منقطع ہوجاتا ہے تو اس کا رشتہ قوت کے اس لازوال سرچشمے سے جڑ جاتا ہے جو کسی واقعے کو ظہور میں لانے کے لیے خارجی تدبیروں کا محتاج نہیں۔