21 نومبر 1985
قرآن میں مختلف مقام پر بتایا گیا ہے کہ اسرائیل جب مصرمیں آباد تھے تو مصر کا بادشاہ ان کے لڑکوں کو قتل کردیتا تھا اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھتا تھا۔ (دیکھیے2:49 ؛ 7:141 ؛ 14:6)۔
ان آیات میں الفاظ بالکل عام ہیں۔ بظاہر ان کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ فرعون بنی اسرائیل کے تمام لڑکوں کو قتل کروا دیا کرتاتھا۔ مگر ایسا نہیں۔ کیوں کہ اگر وہ تمام لڑکوں کو قتل کرتا تو بنی اسرائیل کی نسل ہی مٹ جاتی۔ اصل یہ ہے کہ فرعون بنی اسرائیل کے سربرآوردہ خاندان کے لڑکوں کو قتل کرواتا تھا۔ یا ایسے جوانوں کو قتل کروادیتا تھا، جن کے اندر اسے قیادت کی صلاحیت نظر آتی تھی۔
بنی اسرائیل چوں کہ حضرت یوسف کے زمانے میں حکمراں گروہ کی حیثیت رکھتے تھے، اس لیے وہ ان سے سیاسی خطرہ محسوس کرتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ بنی اسرائیل کے اندر ایسے اعلیٰ افراد نہ ابھریں جو دوبارہ اپنی قوم کو منظم کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ نے عمومی انداز میں اس فعل کی غیر معمولی شدت ظاہر کرنے کے لیے اختیار فرمایا۔ یہی دعوت کا اسلوب ہے۔ جو لوگ اس راز کو نہ سمجھیں، وہ بہت سے گہرے معانی کو پانے سے محروم رہ جائیں گے۔