13مئی 1985

قرآن میں زمین کے بارے میں ایک مقام پرخَلَقَ الْأَرْضَ (41:9)کے الفاظ ہیں۔ یعنی اللہ نے زمین کو خلق (create)کیا۔ دوسری جگہ اس سلسلے میں یہ الفاظ ہیں:وَالْأَرْضَ وَضَعَهَا لِلْأَنَامِ (55:10)۔ یعنی اور زمین کو اس نے مخلوق کے لیے رکھ دیا ۔پہلی آیت سے مراد زمین کو وجود میں لانا ہے۔ دوسری آیت کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے زمین کو اس کے صحیح ترین مقام پر رکھا ۔ اس کو انام (ذی حیات اشیا) کے عین مطابق بنایا۔

یہ آیت اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن خدا کی کتاب ہے۔ نزولِ قرآن کے وقت کسی کو معلوم نہ تھا کہ ساری کائنات میں صرف زمین ہے، جو ذی حیات اشیا کے انتہائی مناسب حال بنائی گئی ہے۔زمین کی جسامت (diameter) اگر موجودہ جسامت کا نصف ہو تو اسکی قوتِ کشش اتنی کم ہوجائے گی کہ انسان اور اس کے مکانات زمین پر ٹھہر نہ سکیں ۔ زمین کی جسامت اگر موجودہ جسامت کی دگنی ہوجائے تو اس کی قوتِ کشش اتنا بڑھ جائے گی کہ زمین پر چلنا پھرنا مشکل ہوجائے۔ اسی طرح سورج اور زمین کا فاصلہ اگر موجودہ فاصلہ کا دگنا ہوجائے تو زمین برف کی طرح ٹھنڈی ہوجائے۔ اور اگر سورج اور زمین کا فاصلہ آدھے کے بقدر کم ہوجائے تو زمین سورج کی گرمی سے جھلس اٹھے۔

یہی معاملہ دوسری چیزوں کا ہے۔ زمین پر پانی ہے جو کسی دوسرے کرہ پر موجود نہیں۔ زمین پر آکسیجن ہے جو اس طرح موزوں حالت میں اور کہیں نہیں پائی جاتی، وغیرہ وغیرہ۔

ذی حیات اشیا کے لیے زمین کی اس استثنائی موزونیت کا علم صرف زمانۂ جدید میں ہوسکا ہے۔ اس سے پہلے انسان اس بارے میں کچھ نہ جانتا تھا۔ ایسی حالت میں قرآن میں ڈیڑھ ہزار سال پہلے اس آیت کا ہونا ظاہر کرتا ہے کہ یہ خدائی کلام ہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom