2مارچ 1985
حُمید بن عبد الرحمن کہتے ہیں کہ میں یزید کی ولی عہدی کے وقت حضرت بُشیر کے پاس گیا ،جو صحابہ میں سے تھے۔ میں نے ان سے یزید کے بارے میں اظہارِ خیال کے ليےكها۔ انھوں نے کہا: يقولَوْن:إِنَّمَا يزيد ليس بخير أمة محمد -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وأنا أقول ذلك، ولكن لأن يجمع الله أمة محمد أحب إلي من أن تفترق ( تاریخ الاسلام للذہبی،جلد 4، صفحہ 87)۔ یعنی لوگ کہتے ہیں کہ یزید امت محمد کےبہتر لوگوں میں سےنہیں ہے، اور میں بھی یہی کہتا ہوں۔ لیکن امتِ محمدي کا اتفاق سے رهنا،مجھے افتراق کی بنسبت زیادہ پسند ہے۔
جس وقت امیر معاویہ نے اپنے بیٹے یزيد کو ولی عہد بنایا اس وقت ہزاروں کی تعداد میں صحابہ کرام زندہ موجود تھے ۔ مثلاً حسین بن علی، عبد اللہ بن عباس، عبد اللہ بن عمر، عبد اللہ بن زبیر، اور عبدالرحمن بن ابی بکر اور دوسرے بہت سے جلیل القدر افراد ملت کے اندر موجود تھے۔ ایسی حالت میں یزید کو خلیفہ بنانا سخت قابل اعتراض ہوسکتا تھا۔ مگر تمام صحابہ نے اس پر سکوت اختیار کیا۔ حضرت حسین کے سوا کسی نے بھی یزید كے خلاف کوئی مہم نہیں چلائی۔اصحابِ رسول کی یہ خاموشی یقینی طورپر بزدلی کی بنا پر نہ تھی، بلکہ اسلامی حکمت کی بنا پر تھی۔