31جنوری 1985
ایک مجذوب تھے۔ وہ گندی حالت میں سڑکوں پر پڑے رہتے تھے۔ لوگ ان سے کچھ کہتے تو ان کا جواب ہمیشہ صرف ایک ہوتا تھا:حرام کھاؤ، چوری کرو، ماں پر سوؤ۔
لوگ حیران رہتے کہ مجذوب صاحب اس قسم کی الٹی بات کیوں کہتے ہیں۔ تاہم مجذوب صاحب نے کبھی اس کی تشریح نہیں کی۔ کوئی شخص ان الفاظ کا مطلب پوچھتا تو وہ بگڑ جاتے۔ مجذوب اسی طرح کہتے رہے۔ یہاں تک کہ ان کا انتقال ہوگیا۔
مجذوب صاحب کے ایک معتقد سے میری ملاقات ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ میں برسوں تک مجذوب صاحب کے الفاظ پر سوچتا رہا۔ آخر کار میری سمجھ میں آگیا کہ وہ کیا کہتے تھے۔ ان کا مطلب تھا:غصہ کھاؤ، چھپ کر عبادت کرو، زمین پر سوؤ۔
اسلام توہم پرستی کو مٹانے آیا تھا مگر بعد کے زمانے میں خود مسلمان طرح طرح کے توہمات میں مبتلا ہوگئے۔ انھیں میں سے ایک ’’مجذوب‘‘ کا عقیدہ بھی ہے۔شریعت میں مجذوب کوئی چیز نہیں۔ مگر لوگ جب کسی کو غیر معمولی حالت میں دیکھتے ہیںتو سمجھ لیتے ہیں کہ یہ کوئی مجذوب (پہنچے ہوئے شخص ) ہیں، اور اس کی پرستش شروع کردیتے ہیں۔