22مارچ 1985
21مارچ 1985 میں میں نے ميرات كے بارے ميں اپنے ایک سفر كا تجربہ لکھا ہے۔ اس تجربہ سے سیرت کا ایک پہلو سمجھنے میں مجھے مدد ملی۔
ميرات كے مذكوره سفر میں جب ہمارا میزبان ارہر کی دال اور گلگلہ لے آیا تو میرا اندرونی جذبہ خود بخود رہنمائی کرنے لگا کہ اس وقت مجھے کیا کرنا چاهيے۔ عین اپنے اندرونی جذبے کے تحت میری زبان سے حوصلہ افزائی کے کلمات نکلنے لگے۔ میں یہ کہہ کر ذوق وشوق کے ساتھ اس کو کھانے لگا: یہ تو بہترین کھانا ہے، یہ تو بہترین کھانا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسندیدہ کھانوں کے سلسلہ میں جو روایتیں آتی ہیں، ان کی حقیقت یہی ہے۔ ان روایتوں کے سلسلہ میں سب سے اہم قابل غور بات یہ ہے کہ اس میں تقریباً ہر اس کھانے کا ذکر ہے، جو اس وقت مدینہ میں رائج تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب ہر چیز رسول اللہ کا پسندیدہ کھانا تھا، تو آخر وہ چیز کیا ہے جو آپ کو پسند نہ ہو۔
اصل یہ ہے کہ اس وقت مدینہ میں غذا کی فراوانی نہ تھی۔ بڑی مشکل سے آدمی کوئی ایک دو چیز حاصل کر پاتا تھا، جس سے وہ اپنا پیٹ بھر سکے۔
اکثر یہ صورت پیش آتی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں کھانے کا کوئی سامان موجود نہیں ہے۔ کسی انصاری کو پتہ چلا تو وہ آپ کے پاس حاضر ہوا، اور آپ کو بلا کر اپنے گھر لے گیا۔ وہ گھر کے اندر کھانا لانے کے ليے گیا، تو معلوم ہوا کہ گھر کے اندرصرف کوئی ایک یا دو چیز ہے، وہ اس کو اٹھا لایا، اور شرمندگی کے ساتھ آپ کے سامنے رکھ دیا، اور کہا یار سول اللہ اس وقت یہی ہے، آپ اس کو تناول کیجیے۔ آپ نے کھانے کو دیکھا ،تو آپ کی ایمانی شرافت حوصلہ افزائی کے کلمات میں ڈھل گئی۔ آپ نے یہ کہہ کر اس کو ذوق و شوق کے ساتھ کھانا شروع کردیا ،اور کہا: یہ تو بہترین چیز ہے، اس سے اچھی کوئی چیز نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسندیدہ غذاؤں کے سلسلے میں جو حدیثیں آتی ہیں، ان کی حقیقت بس یہی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قسم کے اقوال دراصل وہ کلمات ہیں، جو ایک شریف آدمی اپنے میزبان کے دستر خوان پر کہتا ہے۔ یہ میزبان کی نسبت سے ہے، نہ کہ کھانے کی نسبت سے۔