16مئی1985
انڈیا کےمشہورانگریزی صحافی مسٹر خشونت سنگھ (پیدائش 1915)نے لکھا ہے کہ میں ہندستان سے پاکستان گیا۔ جب ہمارا ہوائی جہاز لاہور کی فضا میں پہنچا تو جہاز میں اناؤنسر نے اعلان کیا کہ پاکستان میں شراب ممنوع ہے۔ کوئی مسافر شراب کی بوتل کے ساتھ پاکستان میں داخل نہیں ہوسکتا۔آپ میں سے جس شخص کے پاس شراب ہو وہ اس کو جہاز کے عملے کے پاس جمع کردے۔ مسٹر خشونت سنگھ نے لکھا ہے کہ میرے پاس شراب کی ایک بوتل تھی۔ یہ بوتل میں نے حسبِ اعلان ہوائی جہاز کے عملے کے حوالے کردیا۔ مگر اس کے بعد جب میں لاہور کے اندر داخل ہوا تو مجھے معلوم ہوا کہ بلیک مارکیٹ میں شراب نہایت فراوانی کے ساتھ بک رہی ہے، اور میں بلیک سے جتنی چاہے شراب خرید سکتا ہوں۔(20 مارچ 2014 کومسٹر خشونت سنگھ کا انتقال ہوچکا ہے)۔
مولانا غیاث الدین رحمانی سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ موجودہ زمانے میں جن مسلم ملکوںمیں شراب بند کی گئی ہے، وہاں اس کا یہی انجام ہوا ہے۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے لوگوں کا ذہن بنایا اس کے بعد شراب کی حرمت کا اعلان کیا (مسند احمد، حدیث نمبر 8620)۔ اسی طرح موجودہ زمانے میں پہلے اس کے موافق ذہنی فضا بنانی پڑے گی۔ محض قانون کے زور پر لوگوں کو شراب نوشی سے روکا نہیں جاسکتا۔
انھوں نے کہا کہ مگر یہ طریقہ ہم کو اسلاف کے یہاں نہیں ملتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک ہزار سال تک قانون ہی کے زور پر شراب کو روکا جاتا رہا۔ ایسا نہیں کیا گیا کہ پہلے ذہنی فضا بنائی جائے اس کے بعد شراب پر پابندی لگائی جائے۔
میں نے کہا پچھلے زمانے پر موجودہ زمانہ کو قیاس کرنا صحیح نہیں۔ اس لیے کہ پچھلا زمانہ وہ ہے، جب کہ اسلامی روایات کا تسلسل برابر جاری تھا۔ مگر موجودہ زمانے میں اسلامی روایات کا تسلسل یکسر ٹوٹ گیا ہے۔ اب دوبارہ وہی ضرورت پیش آگئی ہے، جو رسول اللہ کے زمانےمیں تھی۔ اب ہمیں دوبارہ اسلامی روایات قائم کرنی پڑیں گی، اس کے بعد ہی قانون کا نفاذ مفید ہوسکتا ہے۔ کیوںکہ قانون ہمیشہ روایات کے اورپر نافذ ہوتاہے، اورموجودہ زمانے میں شراب بندی کے قانون کے لیے روایات کا زور موجود نہیں ہے۔