17جنوری 1985
مسٹر توقیر احمد ایم اے (اوکھلا) نے اپنے گاؤں کا ایک دلچسپ قصہ بتایا۔ ان کے یہاں کے ایک زمین دار نے اپنا آم کا باغ پھل کے موسم میں پھل والے کے ہاتھ فروخت کیا ۔اس کے بعد تیز آندھی آئی، اور اکثر آم جھڑ گئے۔ باغبان زمین دار سے ملا۔ اس نے فریاد کی کہ آندھی سے پھلوں کا بہت زیادہ نقصان ہوا ہے۔ آپ دام کم کردیجيے ورنہ میں بالکل دیوالیہ ہوجاؤں گا۔ زمین دار نے دام کم کرنے سے انکار کردیا، اور کسی قسم کی رعایت دینے پر راضی نہ ہوا۔
توقیر صاحب کو باغبان پر رحم آیا۔ انھوں نے زمین دار کے سامنے باغبان کی سفارش کی۔ زمین دار بگڑ گیا۔ اس نے کہا كه تم کمیونسٹ لوگ اس بات کو نہیں سمجھ سکتے۔ انسان کا رزق انسان کے ہاتھ میں نہیں ہے، وہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔ خدا چاہے گا تو اس کو پہلے سے بھی زیادہ دے گا۔
انسان کیسا عجیب ہے۔ دوسرے کے خلاف اس کو قرآن سے بے شمار دلیلیں مل جاتی ہیں۔ مگر اپنے خلاف اس کو قرآن سے کوئی دلیل نہیں ملتی۔زمین دار صاحب کو خود اپنے ليے تو پھل كے تاجر سے لینا تھا، مگر اس تاجرکے بارے میں انھیں یقین تھا کہ اس کو خدا سے مل جائے گا۔