20 نومبر 1985

 عبد الرحمٰن بن عبدالقاری تابعی (وفات 80ھ) کہتے ہیں کہ میں رمضان کی ایک رات خلیفہ ثانی عمر بن خطاب کے ساتھ مسجد گیا۔ اس وقت لوگ مختلف حالتوں میں (نماز اداکررہے) تھے۔ کوئی تنہا نماز پڑھ رہا تھا، اور کوئی چند آدمیوں کے ساتھ ۔ حضرت عمر نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ اگر میں ان سب کو ایک امام پر جمع کردوں تو یہ بہت اچھی بات ہوگی۔ پھرمشورہ کرکے آپ نے ابی بن کعب کو ان کا امام بنا دیا۔ دوسری رات کو دوبارہ جب میں حضرت عمر کے ساتھ (مسجد کی طرف) نکلا تو لوگ اپنے امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے۔ حضرت عمر نے (یہ دیکھ کر) کہا: کیسی اچھی ہے یہ بدعت (نِعْمَ البِدْعَةُ هَذِه) ۔ صحیح البخاری،حدیث نمبر 2010۔

بدعت اسلام میں بری چیز ہے، جب کہ حضرت عمر نے یہاں اس کو اچھا بتایا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں بدعت کے لفظ سے اصطلاحی بدعت مراد نہیں ہے۔ یہاں یہ اپنے لفظی معنی میں ہے، نہ کہ شرعی اصطلاح کے معنی میں۔

یہ ایک سادہ سی مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی بات کو سمجھنے کے لیے تفصیلی اور جامع علم بہت ضروری ہوتا ہے۔ جس شخص نے صرف مساجد کے وعظ میں ’’بدعت“ کا لفظ سنا ہو وہ اس حدیث کو صحیح طور پرسمجھ نہیں سکتا۔ اس حدیث میں ’’بدعت“ کا مفہوم سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اس کے اصطلاحی مفہوم کے ساتھ اس کے لفظی مفہوم کو بھی جانتا ہو۔ صرف ایک مفہوم کو جاننا حدیث کو سمجھنے کے لیے کافی نہیں۔ یہی اصول زندگی کے دوسرے معاملات میں بھی چسپاں ہوتا ہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom