1 اکتوبر 1985
علمائے تفسیر کا کہنا ہے کہ قرآن کی تفسیر کا مصدرِ اول خود قرآن ہے۔ اور قرآن کی تفسیر کا مصدرِدوم وہ حدیث کو قرار دیتے ہیں۔
مثلاً سورہ فاتحہ میں ہے:غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ (1:7) ۔ یعنی ان کا راستہ نہیں جن پر تیرا غضب ہوا، اور نہ ان لوگوں کا راستہ جو راستے سے بھٹک گئے۔ یہاں سوال ہے کہ اس سے مراد کون لوگ ہیں۔ حدیث رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ مغضوب علیہم سے مراد یہود ہیں اور ضالین سے مراد نصاریٰ(مسند احمد، حدیث نمبر 19381)۔
اسی طرح قرآن میں ہے :وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّة (8:60)۔ یعنی اور ان کے لیے جس قدر تم سے ہو سکے تیار رکھو قوت۔ یہاں قوت سے کیا مراد ہے۔ اس سلسلہ میں حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:أَلَا إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْيُ، أَلَا إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْيُ، أَلَا إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْيُ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 1917)۔جان لو کہ قوت سے مراد تیر اندازی ہے، جان لو کہ قوت سے مراد تیر اندازی ہے، جان لو کہ قوت سے مراد تیر اندازی ہے۔
تاہم ان مصادر (sources)کے ساتھ ایک اور چیز انتہائی ضروری ہے، اوروہ هے تفقہ (حکمت و بصیرت)۔ اگر تفقہ نہ ہو تو آدمی فرسٹ مصدر اور سیکنڈ مصدر کا ماہر ہونے کے باوجود قرآن کی د رست تفسیر نہ کرسکے گا۔ مثلاً پہلی آیت (الفاتحہ، 1:7) کی تفسیر میں مذکور حدیث میں صرف آدھی بات ہے۔ مکمل بات ایک دوسری حدیث کو ملانے سےسمجھ میں آتی ہے۔ ایک دوسری حدیث میں امتِ مسلمہ کے بارے میں آیا ہے:لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، شِبْرًا شِبْرًا وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ، حَتَّى لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوهُمْ، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اليَهُودُ وَالنَّصَارَى؟ قَالَ: فَمَنْ (صحیح البخاری، حدیث نمبر7320)۔ یعنی تم ضرور پچھلی امتوں کی پیروی کروگے، قدم بہ قدم، یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے بل میں داخل ہوئے ہیں تو تم بھی ضرور اس میں داخل ہوجاؤ گے، ہم نے کہا: اے خدا کے رسول، یہود ونصاری، آپ نے کہا: اور کون۔
اس كا مطلب یہ هے کہ یہود و نصاری نے بگاڑ پیدا ہونے کے بعد جو کچھ کیا وہی سب مسلمان بھی بعد کے زمانے میں کریں گے۔ ان دونوں حدیثوں کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آیت میں مغضوب اور ضالین سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے زوال یافتہ ذہنیت کی وجہ سے خدا کی ناراضگی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ قدیم زمانے میں یہود و نصاری نے ایسا کیا تھا، بعد کے زمانے میں امت محمدی پر ایسا وقت آسکتا ہے۔
اسی طرح دوسری آیت (الانفال،8:60) کی تفسیر میں مذکور حدیث کو بھی بالکل لفظی معنی میں لے لیا جائے تو اسلام ایسی سائیکل کی مانند بن جائے گا، جس کا ہینڈل کَس دیا گیا ہو، اور وہ سائیکل دائیں بائیں گھوم نہیں سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ دوسری آیت کی یہ تفسیر ایک زمانی تفسیر ہے، نہ کہ ابدی تفسیر۔ اگر اس تفسیر کو ابدی تفسیر قرار دیا جائے تو بعد کے ادوار میں مسلمانوں نے فوجی قوت کے لیے جو نئے نئے اضافے كيے، وہ سب غیر اسلامی قرار پائیں گے۔ یا کم ازکم یہ کہ بدلتے ہوئے زمانہ کے لحاظ سے دفاعي قوت كي فراهمي کے ليے قرآن سے انحراف ضروری هوگا۔ ورنہ ہم اپنے دور کے لحاظ سے اپنے کو طاقت ور نہیں بنا سکتے۔