21 اکتوبر 1985
ایک صاحب تھے۔ وہ کسی سابق نواب کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ نوابی تو ختم ہوچکی تھی، مگر ’’پدرم سلطان بود“ (میرا باپ بادشاہ تھا) کی نفسیات ان کے اندر پوری طرح باقی تھیں۔ ان کی ایک لڑکی تھی۔ اس کا رشتہ کئی جگہ سے آیا مگر انھوں نے انکار کردیا۔ کیوں کہ یہ رشتے ان کے خیال سے ان کے شایان شان نہ تھے، اور جس رشتہ کو وہ اپنے شایان شان سمجھتے تھے، وہ انھیں مل نہ سکا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی لڑکی کی شادی نہ ہوسکی۔
یہی کیس زیادہ بڑی شکل میں موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا ہے۔ مسلمانوں کی گزری ہوئی تاریخ نے ان کوایک قسم کے احساس فخر میں مبتلا کردیا ہے۔ اس احساس فخر کا یہ نتیجہ ہے کہ کوئی چھوٹا کام انھیں اپنے شایانِ شان نظر نہیں آتا۔ ہمیشہ بڑے کام کی طرف دوڑتے ہیں، کیوں کہ وہی کام ان کو اپنے شایانِ شان نظر آتاہے جس کو بڑے بڑے لفظوں میں بیان کیا جاسکتا ہو۔
اسی احساسِ فخر کی نفسیات نے موجودہ زمانے کے تمام مسلم رہنماؤں کی کوششوں کو بے نتیجہ بنادیا۔ موجودہ زمانے میں جو بھی مسلم رہنما اٹھا، اس نے ہمیشہ کسی بڑے کام کا نعرہ لگایا— ہر آدمی نے مینار پر کھڑا ہونا چاہا، کوئی بھی زمین پر کھڑا ہونے کے لیے تیار نہ ہوا۔ یہی سب سے بڑی وجہ ہے کہ بے شمار ہنگامہ خیز تحریکوں کے باوجود موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی ملی تعمیر واقعہ نہ بن سکی۔ کیوں کہ حقیقی تعمیر کے لیے ہمیشہ چھوٹی سطح سے آغاز کرنا پڑتا ہے، مسلم رہنماؤں نے اپنی پر فخر نفسیات کی بنا پر چھوٹی سطح کے کام کواپنے شایان شان نہ سمجھا، اس لیے وہ کوئی حقیقی تعمیری کام بھی انجام نہ دے سکے۔