1اپریل1985
سورۃ الذاریات کی آیت 47کے سلسلے میں میں نے قرآن کے بہت سے تراجم کو دیکھا۔ اکثر لوگوں نے وہی ترجمہ کیا ہے، جو میں اس سے پہلے نقل کر چکا ہوں۔ میرے علم کے مطابق، اس میں صرف کچھ مترجمین کا استثنا ہے۔
شاہ رفیع الدین صاحب (1750-1818)کے متعلق معلوم ہے کہ وہ خالص لفظی ترجمہ کرتے ہیں۔ حتی کہ وہ اس کا بھی لحاظ نہیں کرتے کہ ان کے الفاظ پڑھنے والا سمجھ سکے گا یا نہیں ۔ان کے لفظی ترجمہ پر کچھ لوگ ہنستے ہیں، مگرحقیقت ہے کہ اس لفظی ترجمہ کی وجہ سے اکثر وہ ایسی غلطی سے بچ جاتے ہیں، جو دوسرے مترجمین سے ہوئیں۔ شاہ رفیع الدین صاحب نے مذکورہ آیت کا جو ترجمہ کیا ہے وہ ان کے الفاظ میں یہ ہے:
’’اور آسمان کو بنایا ہم نے اس کو ساتھ قوت کے اور تحقیق ہم البتہ کشادہ کرنے والے ہیں‘‘
(مطبوعہ:مجمع البحوث العلمیہ الاسلامیہ، نئی دہلی، صفحات623-24)
یہ چھوٹی سی مثال ایک بہت بڑی حقیقت کو بتاتی ہے۔ یہ حقیقت کہ خدا کے کلام کی اطاعت خالص تقلیدی انداز سے ہونی چاہیے۔ خدا کے کلام سے اگر ایک حکم واضح طورپر نکل رہا ہو تو ہم کو چاہیے کہ ہم بالکل مقلدانہ انداز میں اس پر چل پڑیں۔ عین ممکن ہے کہ مستقبل یہ بتائے کہ خدا کے اس حکم میں بہت بڑا خیر تھا جو بظاہر ہماری عقل میں نہیں آتا تھا۔
شاہ رفیع الدین صاحب نے یقیناً یہ ترجمہ جدیدفلکیاتی فہم کے ساتھ نہیں کیا کیوں کہ توسیع کائنات کا نظریہ (expanding universe theory) ان کے زمانے میں دریافت ہی نہ ہوا تھا۔ یقینی طورپر انھوں نے یہ ترجمہ خالص تقلیدی ذہن کے تحت کیا، مگر ان کی تقلید عظیم الشان اجتہاد بن گئی۔ جو چیز ماضی میں بظاہر ناقابلِ فہم تھی، جب مستقبل کے پردے ہٹے تو معلوم ہوا کہ وہی سب سے زیادہ قابلِ فہم بات ہے۔ آج جدید معلومات سامنے آنے کے بعد شاہ رفیع الدین صاحب ہی کا ترجمہ صحیح نظر آتا ہے جب کہ قدیم زمانے میں وہ غیر صحیح دکھائی دیتا تھا۔