22  نومبر 1985

قرآن میں اہلِ جنت کی صفات میں سے ایک صفت یہ بیان ہوئی ہے کہ وہ اس دن کی مصیبت سے ڈرتے ہیں جو ہر طرف پھیل پڑے گی۔ وہ اللہ کی محبت میں محتاج کو اور یتیم کو اور قیدی کو کھلاتے ہیں۔ (اور یہ کہتے ہیں) کہ ہم جو تم کو کھلاتے ہیں تو صرف اللہ کی خوشی چاہنے کے لیے کھلاتے ہیں۔ ہم تم سے نہ بدلا چاہتے ہیں، اور نہ شکر گزاری۔ ہم اپنے رب سے ایک ایسے دن کے بارے میں ڈرتے ہیں جو بڑی اداسی والا اور سختی والا ہوگا(76:7-10)۔ان آيات کو پڑھ کر ایک صاحب نے کہا کہ ایسے موقع پر یہ الفاظ عربی میں کہنا چاہیے یا اس کو اپنی زبان میں بھی کہا جاسکتا ہے۔

میں نے کہا کہ آپ اس آیت کا مطلب نہیں سمجھے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جب کسی حاجت مند کی مدد کی جائے تو اس وقت زبان سے یہ الفاظ دہرائے جاتے رہیں۔ اس سے مراد الفاظ نہیں بلکہ احساسات ہیں۔ یعنی جب کسی کے ساتھ حسنِ سلوک کیا جائے تو آدمی کے دل میں یہ احساس طاری ہونا چاہیے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ان الفاظ کو یاد کرلے اور ہر ایسے موقع پر ان الفاظ کو دہرادیا کرے۔ کبھی زبان سے کچھ الفاظ بھی نکل پڑتے ہیں، مگر اصلاً یہاں جس چیز کا ذکر ہے وہ احساسات ہی ہیں۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom