27 نومبر1985
حدیث میں ہے :مَاءُ زَمْزَمَ لِمَا شُرِبَ لَهُ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3062)۔ یعنی زمزم کا پانی جس مقصد کے لیے پیا جائے وہ پورا ہوگا۔
دوسری حدیث ہے:لَا يجْتَمع مَاء زَمْزَم ونار جَهَنَّم فِي جَوف عبد أبدا(الفردوس بماثور الخطاب، حدیث نمبر 7799)۔ یعنی زمزم کا پانی اور دوزخ کی آگ ایک انسان کے پیٹ میں کبھی جمع نہیں ہوسکتے۔
اس بنیاد پر فقہا نے زمزم کے آداب مقرر کیے ہیں۔ فتاوی عالم گیری میں ہے کہ زمزم کا پانی خود اپنے ہاتھ سے نکالا جائے اور قبلہ کی جانب رخ کرکے خوب سیر ہو کر پیا جائے اور ہر سانس پر نظر اٹھا کر بیت اللہ کو دیکھے اور بچا ہوا پانی اپنے منھ اور جسم پر مل لیا جائے اور ہوسکے تو کچھ اپنے جسم پر بھی ڈال لے۔ مسلمانوں نے بعد کے زمانے میں ہر چیز کو ’’مسئلہ‘‘ بنادیا۔ حتی کہ زمزم پینے کو بھی۔ زمزم کے مسائل اس سے بھی زیادہ ہیں جتنا اوپر نقل ہوئے۔