29جون 1985
مستشرقین نے حدیث کو مشتبہ ثابت کرنے کے لیے جن چیزوں کو بنیاد بنایا ہے، ان میں سے ایک حضرت ابو ہریرہ کی کثیر روایات ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ نے ہجرت کے بعد اسلام قبول کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کی صحبت غزوہ خیبر کے بعد شروع ہوئی۔ اس اعتبار سے حضرت ابو ہریرہ کی صحبت رسول ان کثیر روایات کے لیے ناکافی ہیں جو ان سے مروی ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ کی روایات کی تعداد 5374 ہے، جیسا کہ ابن حزم نے لکھا ہے۔ مگر یہ کثیر تعداد تکرار اسناد کی بنا پر ہے۔ محدثین کا طریقہ ہے کہ وہ احادیث کو طرق روایت کے اعتبار سے شمار کرتے ہیں۔ مثلاً حضرت ابو ہریرہ سے ایک حدیث کو چار آدمیوں نے سنا ہو اور وہ چاروں الگ الگ اس کو بیان کریں تو محدثین کے یہاں یہ ایک حدیث چار حدیث بن جائے گی۔
کچھ لوگوں نے اس کا جائزہ لیا ہے اور تکرار کو حذف کرکے روایات کی تعداد متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب انھوں نے مکررات کو حذف کیا تو روایات ابوہریرہ کی اصل تعداد صرف 1336 رہ گئی۔
اس حقیقت کو سامنے رکھا جائے تو منکرین حدیث کا اعتراض بالکل بے حقیقت ثابت ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ حضرت ابوہریرہ کی مدت صحبت کے اعتبار سے 1336 کی تعداد زیادہ نہیں۔ جب کہ یہ ثابت ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد وہ اپنے قبیلے سے آکر مدینہ میں رہ گئے تھے اور مسجد نبوی میں قیام کی وجہ سے ان کو رسول اللہ کے ارشادات سننے کا موقع دوسروں سے زیادہ ملا تھا۔
تاریخ کی کتابوں میں ان کے بارے میں اس قسم کے الفاظ آئے ہیں:كَانَ مِن أحفظ أَصْحَاب رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وألزمه لَهُ على شبع بَطْنه وَكَانَت يَده مَعَ يَده يَدُور مَعَه حَيْثُ مَا دَار إِلَى أَن مَاتَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم(رجال صحيح مسلم لابن مَنْجُوَيه، جلد2، صفحہ403، اثر نمبر 2161)۔ یعنی وہ اصحاب رسول میں سب سے زیادہ (حدیث کے) حافظ تھے، وہ بھوکے رہ کر بھی سب سے زیادہ آپ کے ساتھ رہے ، انھوں نے آپ کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ ڈالا، اور جہاں آپ گئے وہاں وہ گئے، یہاں تک کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا۔