2 ستمبر 1985
ایک صاحب ایک مسلم قائد کی عظمت کے بہت زیادہ قائل تھے۔ انھوں نے قائد موصوف کے بارے میں تقریر کرتے ہوئے پر جوش طور پر کہا: وہ سوبار غلطی کرسکتے تھے مگر وہ ایک بار بھی کسی کے ہاتھ بک نہیں سکتے تھے‘‘۔میں نے کہا کہ ’’سو بار“ غلطی کرنا خود بھی بکنے ہی کی ایک صورت ہے۔ یہ خود اپنے ہاتھ بکنا ہے، یہ اپنے نفس کے ہاتھ فروخت ہونا ہے۔
جب بھی آدمی کوئی غلط بات کہتا ہے یا کوئی غلط اقدام کرتا ہے تو بہت جلد مختلف طریقوں سے اس کی غلطی اس پر واضح ہوجاتی ہے۔ اگر آدمی اپنے نفس کے ہاتھ بکا ہوا نہ ہو تو وہ اپنی غلطی کا علی الاعلان اعتراف کرے گا۔ حتی کہ اگروہ قائد ہوتے ہوئے بار بار غلطی کیے چلا جارہا ہے تو وہ اعلان کردے گا کہ میں قیادت کرنے کے قابل نہیں ہوں۔ میری فہم وبصیرت اس سے کم ہے کہ میں قوم کی قیادت کرسکوں۔ اس لیے میں قیادت کے کام سے مستعفی ہو رہا ہوں۔
کوئی شخص غلطی پر غلطی کرے اور پھر بھی قیادت کے میدان سے واپس نہ ہو تو یہ واضح طورپر اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کے اوپر اس کا نفس چھایا ہوا ہے۔ ساکھ اور عزت نفس کا سوال اس کو علی الاعلان اپنی قیادتی نا اہلی کا اعتراف کرنے سے روکے ہوئے ہےاس سے زیادہ بکا ہوا انسان اور کون ہوسکتا ہے— پر جوش الفاظ اور حقیقتِ واقعہ میں فرق نہ کرسکے۔