2مئی 1985
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے یہ شکایت کی کہ الرسالہ میں سلف پریز (self-praise) ہوتا ہے۔ میں نے کہا کہ اس کی مثال دیجیے۔ انھو ںنے الرسالہ میں شائع شدہ ایک خط کا ذکر کیا جس میں الرسالہ کے زبان و بیان پر پسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہے۔ میں نے کہا کہ آپ یہ بتائیے کہ سلف پریز کا مطلب کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اپنی تعریف آپ کرنا۔ میں نے کہا کہ آپ نے جس خط کا حوالہ دیا ہے ،وہ دوسرے شخص کا خط ہے پھر یہ اپنی تعریف آپ کرنا کیسے ہوا۔
اسی مجلس میں انھوں نے اپنے گھر کے حالات کاتذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ گھر کے اخراجات پہلے میں خود کرتا تھا مگر میں نے دیکھا کہ میرے ہاتھ سے زیادہ خرچ ہوجاتاہے اس لیے میں نے یہ کام اپنی بیوی کے حوالے کردیا۔ وہ، ماشاء اللہ، نہایت احتیاط سے خرچ کرتی ہیں۔ اب ہمارے گھر کا ماہانہ خرچ پہلے سے کم ہوگیا ہے، اور پس انداز کی جانے والی رقم کی مقدار بڑھ گئی ہے۔
میں نے سوچا کہ آدمی بھی کیسا عجیب ہے۔ ایک معاملے میں اس کا رویہ کچھ ہے، اور دوسرے معاملے میں اس کا رویہ کچھ دوسرا۔ وہ اپنے پیسے کو خرچ کرنے کے معاملے میں نہایت کفایت شعار ہے مگر اپنے الفاظ کو خرچ کرنے کے معاملے میں نہایت فیاض۔ مذکورہ بزرگ الرسالہ پر تبصرہ کرنے کے لیے اپنے الفاظ کے ذخیرے کو بے حساب خرچ کررہے ہیں، مگر وہی بزرگ اپنے جیب کے پیسہ کو خرچ کرنے کے معاملے میں حد درجہ محتاط اورکفایت شعاربنے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی رقم کو سوچ سمجھ کر خرچ کرتے ہیں،اور اپنے الفاظ کو سوچے بغیر۔