8اپریل 1985
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حضرت عائشہ نے فرمایا کہ لوگوں نے آپ کو روند ڈالا تھا (حَطَمَهُ النَّاسُ)صحیح مسلم، حدیث نمبر 732۔ نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ کی کیا مصلحت ہے،مگر میرے جیسے کمزور آدمی کے ساتھ بھی یہ واقعہ پیش آیا ہے کہ لوگوں نے مجھ کو اتنا زیادہ ستایا ہے کہ اس کے ليے انسانی زبان میں سب سے موزوں لفظ یہی ہے — لوگوں نے مجھ کو روند ڈالا۔
پھر بھی میں زندہ ہوں ۔ اپنے حال پر مجھے ایک قصہ یاد آتاہے۔ ایک رسالہ نے ایک بار ایک انعامی سوال نامہ چھاپا۔ سوال یہ تھا کہ ایک عورت کی شادی ایک مردسے ہوئی۔ عورت اس مرد کو بہت زیادہ چاہتی تھی۔ مگر شادی کے جلد ہی بعد مرد کا انتقال ہوگیا اور اس نے ایک چھوٹا بچہ چھوڑا ۔ سوال نامہ میں پوچھا گیا تھا کہ بتاؤ کہ یہ عورت اپنے محبوب شوہر کے مرنے کے بعد خود بھی مرجانا چاہے گی یا زندہ رہنا پسند کرے گی۔بہت سے لوگوں نے اپنے جوابات بھیجے۔ جس آدمی کو انعام ملا، وہ شخص وہ تھا جس نے لکھا کہ وہ عورت اپنے بچے کی خاطر زندہ رہنا چاہے گی۔
ایسا ہی کچھ میرا حال بھی ہے۔ لوگوں نے مجھے جس قدر ستایا ہے، اور ستارہے ہیں ،اس کے بعد مجھے ایک دن کے لیے بھی زندہ نہیں رہنا چاهيے تھا۔ مگر میرے سامنے جو دینی کام ہے وہی وہ چیز ہے جو مجھے زندہ رکھے ہوئے ہے۔
میں قرآن کی تفسیر مکمل کرنا چاہتا ہوں۔ میں سیرت پر ایک کتاب لکھنا چاہتا ہوں۔ اس کے علاوہ کئی ضروری موضوعات پر دینی کتابیں تیار کرنا ہے۔ یہی پیش نظر کام ہے، جو مجھے زندہ رہنے پر مجبور کرتاہے۔
شاید اللہ تعالیٰ کو بھی منظو رہے کہ میں یہ کام کروں۔ ورنہ لوگوں نے جتنا زیادہ مجھے پریشانی میں مبتلا کیا ہے ،اس کے بعد میری راتوں کی نیند اڑ جانی چاهيے تھی۔ مگر یہ اللہ کا خاص فضل ہے کہ میرے ہوش پوری طرح باقی ہیں۔ رات کو مجھے وہ نیند آتی ہے جس کو sound sleep کہاجاتا ہے۔ اگر میری نیند خدا نخواستہ اڑ جاتی، تو اس کے بعد میں کوئی بھی علمی کام نہیں کرسکتاتھا۔یا اللہ، مجھے بخش دیجيے، دنیا کا ستایا ہوا ،آخرت میں نہ ستایا جائے۔