19اپریل 1985
موجودہ دنیا میں ہر قوم نے اپنی قومی برتری کا ایک نعرہ اختیار کررکھا ہے:
My Country, right or wrong میرا ملک ،چاہے حق پر ہو یا ناحق پر
Germany above all جرمنی سب سے اوپر
Italy is religion اٹلی مذہب ہے
Rule is for Britannia حکومت برطانیہ کے ليے ہے
America is God's own country امریکہ خدا کا اپنا ملک ہے
White Man’s Burden سفید آدمی کا بوجھ
مختلف قوموں نے اسی طرح مختلف الفاظ بنا لیے ہیں، جن کو بول کر وہ اپنی قومی برتری کے جذبہ کی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ الفاظ اگر چہ الگ الگ ہیں، مگر سب کی نفسیات ایک ہے۔ ہر ایک اپنی قوم کو اونچا سمجھتا ہے۔ ہر ایک قومی بڑائی کے احساس کو اپنی غذا بنائے ہوئے ہے۔
ایسے ماحول میں مسلمان اگر یہ کریں کہ وہ بھی اپنی بڑائی کا نعرہ لے کر کھڑے ہوجائیں — ہمارا دین سب سے کامل، ہمارا نبی سب سے افضل، ہماری تاریخ سب سے شاندار، ہماری قوم خیر الأمم۔ اس طرح کے نعروں کے ساتھ اگر وہ دنیا کے سامنے آئیں تو وہ قومی بڑائیوں کے ٹکراؤ میں ایک اور قومی بڑائی کا اضافہ کریں گے۔ اس قسم کی باتیں صر ف جوابی قومیت کے جذبہ کو ابھاریں گی۔ وہ دعوت اسلامی کے حق میں لوگوں کے دلوں کو نرم نہیں کرسکتی۔
اس قسم کے نعروں کا کوئی بھی تعلق اسلام سے نہیں ہے۔ یہ مسلمانوں نے اپنی قومی برتری کے جذبہ کو تسکین دینے کے ليے بنائے ہیں، اور چوں کہ انھیں یہ درد نہیں ہے کہ دنیا کی قومیں خدا کے دین کے سایہ میں آئیں، وہ نہایت فخر کے ساتھ ان الفاظ کو دہراتے رہتے ہیں۔ انھیں احساس نہیں کہ ان کی اس قسم کی باتیں اسلام کو دوسروں کی نظر میں صرف ایک قومی چیز بنا دیتی ہیں، اور پھر وہ اس کو رقیب سمجھ کر اس سے دور ہوجاتے ہیں۔