7مئی1985
قرآن کی سورہ المؤمن میں ان لوگوں کا ذکر ہے، جن کے ليے آخرت میں سزا کا فیصلہ ہوگا۔ ان کے اس برے انجام کی وجہ بتاتے ہوئے آیا ہے :ذَلِكُمْ بِأَنَّهُ إِذَا دُعِيَ اللَّهُ وَحْدَهُ كَفَرْتُمْ وَإِنْ يُشْرَكْ بِهِ تُؤْمِنُوا (40:12)۔ یعنی یہ تم پر اس ليے ہے کہ جب اکیلے اللہ کی طرف بلایا جاتا تھا تو تم انکار کرتے تھے، اور جب اس کے ساتھ شریک کیا جاتا تو تم مان لیتے۔
یہی موجودہ دنیا میں انسان کی اصل گمراہی ہے۔ انسان کبھی ایسا نہیں کرتا کہ وه مكمل طور پر ناحق کا علم بردار بن جائے۔ وه ہمیشہ ایسا کرتا ہے کہ حق کے ساتھ ناحق کو ملا تا ہے،اور ملاوٹی حق کو اختیار کرتا ہے۔ اس کے مقابلےمیں پیغمبروں کی دعوت بے آمیز حق کی دعوت ہوتی ہے۔ پيغمبراور غیرپیغمبر کی دعوت میں خالص منطقي اعتبار سے، حق اور ناحق کا فرق نہیں ہے۔ بلکہ بے آمیز حق اور آمیزش والے حق کا فرق ہے۔ یہی فرق ایک گروہ کو قابل انعام بناتا ہے، اور دوسرے گروہ کو قابل سزا۔
ملاوٹی حق سے انسان کو اتنی زیادہ دلچسپی کیوں هے۔ اس کی وجہ صرف ایک ہے، اوروہ یہ کہ اس طریقہ کو استعمال کرنے میں آدمی کے اپنے جھوٹے دین کی نفی نہیں ہوتی۔ وہ خدا کو مانتے ہوئے بتوںکی پرستش کو بھی جاری رکھ سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جو لوگ ملاوٹی حق کو پیش کریں، وہ فوراً عوام کے اندر مقبولیت حاصل کرلیتے ہیں۔ ان کی باتوں میں ہر ایک اپنا recognitionپالیتا ہے۔ ایسے لوگ ایک طرف اصول پرستی کی باتیں کرتے ہیں، اور دوسری طرف مفاد پرستی کی۔ ایک طرف وہ آفاقیت کا قصیدہ پڑھتے ہیں، اور دوسری طرف قوم پرستی کا ترانہ گاتے ہیں۔ وہ ایک طرف آخرت کا نام لیتے ہیں اور دوسری طرف دنیوی جھگڑوں میں بھی لوگوں کے ساتھ شریک رہتے ہیں۔
پیغمبر کی دعوت کے انکار کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ہر ایک اپنی نفی محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں ’’مشرک‘‘ لیڈر کو ماننے میں کسی کو اپنی نفی نظر نہیں آتی۔ اس میں کسی کو اپنی جگہ سے ہٹنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ ہر آدمی جہاں ہے، وہیں وہ اپنے مفروضه حق کو بھی پالیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرک کے ساتھ بھیڑ جمع ہوجاتی ہے، اور موحد اس دنیا میں اکیلا رہ جاتاہے۔