31 جولائی 1985
قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:لَقَدْ أَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ كِتَابًا فِيهِ ذِكْرُكُمْ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (21:10)۔ یعنی ہم نے تمہاری طرف ایک کتاب اتاری ہے جس میں تمہاراذکر ہے، پھر کیا تم سمجھتے نہیں۔ بعض بزرگوں کے متعلق مشہور ہے کہ انھوں نے یہ آیت پڑھی تو ان کے ذہن میں آیا کہ قرآن میں جب اس کا ذکر ہے تو ہمارا بھی ذکر ہونا چاہیے۔ چنانچہ انھوں نے قرآن میں اپنا ذکر تلاش کرنا شروع کیا، اور اپنے حسب حال کوئی آیت ڈھونڈھ نکالی۔
اسی اصول کے تحت مجھے بھی یہ خیال ہوا کہ میں قرآن میں اپنا ’’ذکر‘‘ تلاش کروں۔ تلاش کرنے کے بعد قرآن کی جس آیت پر میرا ذہن رُکا وہ یہ تھی:وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا عَسَى اللَّهُ أَنْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (9:102)۔ یعنی کچھ اور لوگ ہیں جنھوں نے اپنے قصوروں کا اعتراف کرلیا ہے۔ انھوں نے ملے جلے عمل کیے تھے، کچھ بھلے اور کچھ برے۔ امید ہے کہ اللہ ان پر توجہ کرے۔ بیشک اللہ بخشنے والا، مہربان ہے۔
قرآن کے نزدیک ہدایت یافتہ گروہ کے دو درجے ہیں۔ ایک وہ جنھوںنے واقعۃً پورے معنی میں عمل صالح کا ثبوت دیا ہو اور اپنے عمل صالح کی بنا پر وہ نجات کے مستحق قرار پائیں۔
قرآن کے مطابق دوسرے لوگ وہ ہیں، جو پورے معنوں میں عملِ صالح کا ثبوت نہ دے سکے۔ البتہ انھوں نے اپنی حیثیتِ واقعی کا اعتراف کیا ہو۔ جنھوں نے کامل شعور کے ساتھ اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں کو جانا اور کسی تحفظ کے بغیر کھلے طورپر اللہ کے سامنے اس کا اقرار کیا۔ یہ دوسرے لوگ بھی اپنے اقرار واعتراف کی بنیاد پر اللہ کے یہاں قابل نجات قرار پائیں گے۔
میں اللہ سے یہ امید کرتا ہوں کہ وہ مجھے دوسرے گروہ میں شامل کرے۔میرے پاس ’’عمل‘‘ کا سرمایہ نہیں، مگر غالباً میرے پاس ’’اعتراف‘‘ کا سرمایہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ توفیق دی ہے کہ میں اپنی کمیوں اور کوتاہیوں کا آخری حد تک اعتراف کروں۔ یہی میرا سرمایہ ہے اس کے سوا میرے پاس اور کوئی سرمایہ نہیں۔