15 اگست 1985
کہاجاتا ہے کہ خلیفہ ہارون رشید نے ایک بار امام شافعی سے پوچھا —خدا کی کتاب کے بارے میں آپ کا علم کیا ہے (ما علمك بكتاب الله)۔امام شافعی نے جواب دیا کہ علوم قرآن کی بہت سی قسمیں ہیں۔ آپ کی مراد کس علم سے ہے۔ کیا امثال و اخبار سے، محکمات سے، متشابہات سے، تقدیم و تاخیر سے، ناسخ ومنسوخ سے، باعتبار مکان مکی و مدنی سے یا باعتبار زمان لیلی و نہاری (رات یا دن) سے، صیفی وشتائی (گرمی یا سردی )سے، باعتبار قیام اور سفر و حضر سے، اس کے اعراب اور حروف و الفاظ سے۔ اس طرح امام شافعی نے قرآن کے 73 علوم گنا دیے۔
ہارون رشید نے یہ سن کر کہا کہ آپ نے قرآن کے بہت کافی علوم کو جمع کرلیا ہے (لقد أوعيت من القرآن علماً عظيماً)۔ مرآة الجنان وعبرة اليقظان لليافعي، جلد2، صفحہ17
بظاہر یہ بڑے کمال کی بات معلوم ہوتی ہے۔ لیکن جب اس اعتبار سے دیکھا جائے کہ صحابہ کرام قرآن کے ان ’’73 علوم“ سے واقف نہ تھے تو یہ مہارت اسلام کے بجائے محض ایک فن نظر آنے لگتی ہے۔ کیوں کہ اسلام اگر ان علوم کا نام ہوتا تو صحابہ کرام ضروران علوم کے ماہر ہوتے۔